244

ابتلاء اور خرافات


ابتلاء کا دور ہے، ملک بھر میں مہلک وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کی تعداد اور اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بات کورونا وائرس اور اس کے اثرات پر ہی ختم نہیں ہوتی, بلکہ اس کے ساتھ ایسی وبائیں بھی پھوٹ پڑی ہیں جن کا تعلق کسی وائرس سے نہیں بلکہ براہ راست انسانوں سے ہے جو وہ بغیر کسی وائرس کے سہارے کے پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ہوشمندی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کو اس وقت صرف کورونا وائرس کی عالمی وباء کا سامنا ہی نہیں بلکہ مادر پدر آزاد سوشل میڈیا پر سائبر دہشت گردی، شرپسندی اور جہالت کی مہلک وبائیں بھی پھوٹ پڑی ہیں۔ حکومت اور سائبر کرائم کے اداروں کی گہری نیند کے باعث ان کے پھیلاؤ کی رفتار وائرس کی رفتار سے بھی دس گنا زیادہ ہے۔ شرپسند، جاہل اور غیر سنجیدہ عناصر کی جانب سے پھیلایا جانے والا جھوٹ اور دیگر خرافات انسانیت کے لئے مزید نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔ ان خرافات کا سب سے بڑا نقصان وائرس سے متعلق روزانہ سامنے آنے والی نئی تحقیق، احتیاطی تدابیر اور دیگر مفید معلومات کا بوجھ اٹھائے سچ کی کشتی عوام تک پہنچنے سے قبل ہی خرافات کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔ تاہم یہاں حال ہی میں سامنے آنے والی کورونا وائرس کی دو نئی علامات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یورپین سینٹر فار ڈیزیز پروینشن اینڈ کنٹرول (سی ڈی سی) کی تحقیق کے مطابق وائرس کی شدید علامات کے علاوہ بعض کنفرم متاثرہ مریضوں میں سونگھنے اور بعض میں چکھنے کی حس ختم ہونے بھی وائرس سے متاثر ہونے کی علامات ثابت ہوئی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ساؤتھ کوریا، چائنا اور اٹلی میں بعض کنفرم کیسز میں صرف چکھنے یا سونگھنے کی علامات کے علاوہ کوئی دوسری علامت سامنے نہیں آئی۔ یعنی پاکستان سمیت دنیا بھر میں وائرس کی ان علامات کی اب تک لاعلمی متاثرین کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ وائرس کے لفظی معنی سے بھی ناآشنا خود ساختہ سائنسدان، دانشور، ڈاکٹرز اور نیم حکیموں کی الگ الگ افواج سوشل میڈیا اور معاشرے میں یکساں توازن سے متحرک ہیں۔  یہ عناصر دنیا بھر کے سائنسدانوں اور محققین کو مات دے کر وائرس کے علاج سے لے کر دنیا کو اس کے وجود سے پاک کرنے کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں اور سادہ لوح عوام ان پر عمل کر کے موت کو گلے لگانے چل پڑتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں وائرس سے بچاؤ کے متعلق پھیلنے والی تقریباً 16 ایسی خرافات کی نشاندھی کرتے ہوئے ہر ملک اور انسان کو ان سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کیونکہ یہ وائرس سے بچانا تو ایک طرف الٹا سخت نقصان دہ اور جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔

ان خرافات سے متعلق متھ بسٹرز (Myth busters) کے نام سے ڈبلیو ایچ او نے ایڈوائزری بھی جاری کر دی ہے۔ اس میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے علاج اور شناخت کے لئے مختلف ٹوٹکے جن میں اینٹی بائیوٹک، نمونیا کی ویکسین اور لہسن سے علاج ، دھوپ میں بیٹھ کر یا گرم پانی سے نہا کر وائرس بھگانا، الکوحل کا استعمال، گرم مرطوب علاقوں سے وائرس کے خاتمے کی پیشن گوئی، سرد موسم اور برفباری میں وائرس کی موت جیسے ٹوٹکے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وائرس کے خاتمے کے لیے ہینڈ ڈرائیر، الٹرا وائلٹ ڈس انفیکٹنٹ لیمپ، الکوحل اور کلورین جسم پر ڈالنا جبکہ شناخت کے لئے سانس روکنے کی مشق جیسی دیگر خرافات کا بھی پول کھول دیا گیا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ان خرافات میں پڑنے کی بجائے صرف ہاتھوں کو صابن یا الکوحل ملے ہینڈ سینیٹائزر سے دھونے سے وائرس کو روکا جا سکتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دھوپ میں بیٹھ کر یا 25 ڈگری سے زائد حرارت لینے سے وائرس کو نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی موسم کے درجہ حرارت سے وائرس پر کوئی فرق پڑے گا کیونکہ گرم ممالک میں بھی  کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ آسی طرح وائرس سے متاثرہ شخص کی تشخیص کے لئے ایک منٹ تک سانس روکنے کے ٹوٹکے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سانس روکنے سے کھانسی کا نہ آنا یا بےآرامی محسوس نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ وائرس فری ہیں یا پھیپھڑوں کی کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں۔ وائرس کی واضح علامات میں خشک کھانسی، تھکاوٹ اور بخار ہے۔ جبکہ شدید متاثرہ مریضوں کو نمونیا کی شکایت ہو سکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے واضح کیا ہے کہ وائرس کی بہترین تشخیص کا واحد طریقہ ٹیسٹ ہے۔ سانس روکنے کی مشق کے زریعے تصدیق نہیں کی جا سکتی بلکہ متاثرہ شخص کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ الکوحل کے استعمال کے متعلق بتایا گیا ہے کہ الکوحل کا استعمال وائرس ختم  نہیں کر سکتا بلکہ متاثرہ شخص کے لئے یہ مزید نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

گرم اور سرد موسم میں وائرس کے خاتمے کی پیشن گوئی کی وضاحت کرتے ہوئے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اب تک کی تحقیق میں ایسی کوئی شہادت نہیں مل سکی کہ گرمی اور نمی کے موسم میں وائرس ختم ہو جائے گا۔ یہ گرم اور سرد علاقوں میں بھی بآسانی پھیل سکتا ہے۔گرمی، سردی اور برفباری بھی اس نئے وائرس کو ختم نہیں کر سکتی۔  اسی طرح تیز گرم پانی سے نہا کر وائرس بھگانے کا ٹوٹکہ بھی غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تیز گرم پانی سے وائرس نہی مر سکتا البتہ تیز گرم پانی انسانی جلد کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ خود ساختہ سائنسدانوں کی مچھروں کے کاٹنے سے وائرس پھیلنے کی پیشن گوئی بھی عالمی ادارے نے رد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کورونا وائرس کی مچھروں کے کاٹنے سے پھیلنے کی کوئی شہادت نہیں مل سکی۔ وائرس مارنے کے دعوے کرنے والے ہینڈ ڈرائیر اور الٹرا وائلٹ ڈس انفیکٹنٹ لیمپ سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ وائرس ختم کرنے کے لئے موثر نہیں بلکہ ان سے نکلنے والی تابکاری شعاعیں نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ کلورین اور الکوحل صرف آلودہ سطح کو صاف کرنے کے لئے تو موثر ہیں لیکن جسم پر ڈالنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ نیم حکیموں کا لہسن کے استعمال سے وائرس ختم کرنے کا نسخہ بھی مسترد کرتے ہوئے عالمی ادارے نے واضح کیا ہے کہ لہسن اینٹی بیکٹیریل ہونے کے باعث کھانا صحت کے لئے تو مفید ہو سکتا ہے لیکن وائرس سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح متاثرہ افراد کو اینٹی بائیوٹک ادویات اور نمونیا کی ویکسین کا استعمال جبکہ وائرس کا صرف بزرگ افراد کے لیے خطرناک ہونے کا مفروضہ بھی مضر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اینٹی بائیوٹک اور نمونیا کی ویکسین کورونا وائرس کے لئے کارگر نہیں ہیں اور وائرس صرف بزرگ افراد ہی نہیں ہر عمر کے شخص کو متاثر کر سکتا ہے۔ عالمی ادارے کی ہدایات سے واضح ہے کہ ان خرافات پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرنے اور آگے پھیلانے کی بجائے ہمیں سماجی دوری اور صابن سے ہاتھ دھونے سمیت حفظان صحت کی عادات پر سختی سے کار بند ہونا پڑے گا کیونکہ آنے والے وقت میں انسانیت کی بقاء انھی احتیاطی تدابیر سے مشروط ہو گی۔
 

بشکریہ اردو کالمز