223

"ناعاقبت اندیشی"

خیرسگالی کا یہ طریقہ نہیں ہوتا نہ اعلی ظرفی کا یہ وطیرہ ہوتا ہے ۔مذہبی رواداری کہنا بھی زیادتی ہے تاریخ گواہ ہے کہ مذہبی مداخلت کا انجام عبرتناک اور بھیانک ہوتا ہے۔ سلطنت مغلیہ کا تیسرا فرمارواں جلال الدین اکبر ایک نئے مذہب "دین الہی" کا موجد تھا۔اس کا بنیادی مقصد سب کو ساتھ لے کر چلنا اور  سب کو راضی رکھنا تھا ۔ دربار میں وقتی اور خوشامدی ٹولہ ہاں میں ہاں ملاتا۔ سرکشی ، ناعاقبت اندیشی اسے لے ڈوبی۔ اسے تمام مذاھب کی خوشنودی مطلوب تھی ،سب کو خوش سب کو راضی کرنا مہنگا پڑگیا۔علمائے حق نے آواز اٹھائی تو زندان کا منہ دیکھنا پڑا ، ہندوازم، بدھ مت کے پیروکار وں  میں درپردہ نفرت پلتی رہی۔انھیں مذھب میں مداخلت ہرگز گوارا نہ تھی۔"دین الہی" کے پیروکار صرف بادشاہ کی زندگی تک سرگرم رہے۔ جی حضوری اس وقت تک رہی جب تک بادشاہ زندہ رہا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی" دین الہی" کی تعلیمات کا باب بند ہوگیا۔   بعد میں ہندووں نے اس کی قبر کھود کر ہڈیاں جلا ڈالیں۔یوں نفرت اور غم  و غصے کی آگ ٹھنڈی کی۔
برصغیر میں مسلمان حکمرانوں کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہم کئی سوسال تک کے لیے غلام بنادیے گئے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں فقط زمیں کےایک ٹکڑے کی ہی فرمائش کی تھی۔ خیر سگالی کے طور پر  زمین کا معمولی حصہ عطا ہوا۔خمیازہ پوری قوم نے بھگتا۔  بھلا کافر اور مشرک دوست ہوسکتے ہیں۔
ماضی میں حکومت پاکستان نے سرحد کھول کر سندھ یاتریوں کا دل خوش کرنے کی ممکنہ کوشش کی ، موقف یہ تھا کہ اس طرح   بین المذاھب ہم آہنگی کو فروغ حاصل  ہوگا۔کرتار پور راہداری پر سکھ  یاتریوں کی آمد ،گردوارہ دربار کی یاترا اور سہولتوں ضیافتوں کی انتہاء۔ خوش آمدید کرکے اعلی ظرفی کا ثبوت دینے کی کوشش کی گی ،اب ایک نئی خبر ۔ زیادہ وقت بھی نہیں گزرا کہ اب دارالخلافہ اسلام آباد میں مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ یہ کیسی منطق ہے کہ اسلامی ریاست میں مندر تعمیر کیا جائے۔ اسلامی ریاست میں  پہلے سے تعمیر شدہ مذھبی عبادت گاہوں کا احترام کرنے کا حکم ہے نہ کہ زمین کا ٹکڑا غیر اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا جائے۔پے در پے اس طرز کے اقدامات نے مجھے اکبر بادشاہ کی حکمت عملی یاد دلادی جس کا خمیازہ پوری قوم نے بھگتا۔
عجیب بات ہے کہ بین مذاھب رواداری کے نام پر پاکستان کو  تمام مذاھب کے مل بانٹ کر کھانے کا دسترخوان   بنایا جارہا ہے۔

بشکریہ اردو کالمز