761

 دنیا کے مختلف لوگ- اور ہماری سوچ

 

 کیا تمام مجرم کالے رنگ کے ہوتے ہیں یا حسین و جمیل ؟ کیا کسی انسان کی فوٹو سے اس کی شہریت کا پتہ چل سکتا ہے؟ کیا خوبصورت عینک لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آدمی زھین ہے ؟ ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ۔ پھر بھی کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں ۔ کیا تمام پاکستان میں رہنے

 والے بیوقوف نہیں ۔ کیا سب پاکستان  کے باشندے گرم مزاج نہیں رکھتے ؟ لوگوں کے کسی گروپ کو لے لیں ۔ نوعمر جوان لڑکے لڑکیاں ، ٹرک ڈرائیورز ، بینیکرز ، سب  کے متعلق

 ہمارے ذہنوں میں خاص قسم کی تصویر چسپاں ہو جاتی ہے ۔

 مخصوص قسم کے لوگ جنہیں ہم مذہب ، رنگ ، نسل ، قومیت کی بنیاد پر پہچانتے ہیں ۔ کیا یہ چیز تعصب کی تاریک دنیا سے تعلق نہیں رکھتی ۔ جس کا مطلب ہے Prejudgement یعنی ان پر نظر ڈالے بغیر ان کے متعلق رائے قائم لیتے ہیں ۔ اس رجحان کو ظاہر کرنے کے لیے کالج کے لڑکوں کو 30 خوبصورت مگر نا قابل شناخت عورتوں کی تصویر دکھائی گئیں ۔ ان کو کہا گیا کہ وہ فوٹو دیکھ کر ان عورتوں کی قابلیت ،خوبصورتی اور پسندیدگی کے متعلق بتائیں ۔ 2 ماہ بعد انہی طالبعلموں کو وہی تصویر پر دکھائی

 گئیں اس مرتبہ ان تصاویر کے ساتھ آئرش ، یہودی ، اٹالی امریکن کے فرضی نام لکھےگئے ۔ اب ان لڑکوں کا rating کا معیار تبدیل ہو گیا ۔ وہ چہرے جو دوسری قوموں کی

 نمائندگی کرتے تھے ۔ وہ نظروں سے گر گئے ۔ جبکہ امریکن عورتیں اچانک اتنی خوبصورت دکھائی دینے لگیں ۔

 یہ نامعقول stereo type رویہ چین عمر سے ہی شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک بچہ جو ٹی وی پر ڈرامہ دیکھتا ہے ۔ وہ اچھے اور برے لوگوں میں تمیز کرنا سیکھ جا تا ہے ۔ چند

 ماہ پہلے کہی پے پڑھ رہا تھا کہ ایک ماہر نفسیات نے دکھایا کہ کس طرح یہ بچپن کی عادت انسان کے ذہن میں پختہ ہو جاتی ہے ۔ اس نے خاموشی سے پرائمری سکول کے سب سے لائق بچے کو جس کی ورزش میں غلطیاں کرنے کو کہا ۔ اس کے بعد اس نے کلاس سے پوچھا کیا تم نے کوئی غلطی

 دیکھی ہے ۔ ہاں ! مگر یہ کلاس کے غیر معروف بچے تھے ۔ برے لڑکے ، جن کی کلاس میں کوئی اہمیت نہیں تھی ۔

  دوسری طرف بالغ ہوتے ہوئے بھی ہمارے ذہنوں میں ہر وقت مخصوص تصورات ٹھونسے جاتے ہیں ۔ جیسا که مسخروں سے ہم ہنستے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ

 اس قسم کا مخصوس لہجہ ہمیں ذہنی جد و جہد کرنے سے روکتا ہے ۔کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہوتے ہیں جن سے ہمارا سامنا ہوتا رہتا ہے ۔ انہیں کریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

 ویسے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کسی قسم کے لوگ ہیں ۔ مگر خدشہ یہ ہے کہ مخصوس لیبل کہیں مشاہدے کا نعم البدل نہ بن جائے مثلا اگر یتیم نوجوان عمر کے لڑکے لڑکیوں کوجنگلی ، گنوار  تصور کر لیں ۔ تو ایک ہائی سکول کے ذہین طالبعلم کے متعلق ہمارا ذہن کیسے بدلے گا ۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ یہ کیس مثتنی ہے ۔

 اس بات سے قطع نظر کہ  stereo type رویہ سے لوگوں سے نا انصافی ہوتی ہے ۔ بلکہ یہ چیز انہیں ذہنی کنگال بنادیتی ہے ۔ ایک آدی جب دوسروں کی درجہ بندی کرتا ہے ۔ مثلا وہ کہتا ہے کہ تمام مزدور رہنما شوروغل کرنے والے لوگ ہوتے ہیں یا تمام بزنس مین ڈرپوک ہوتے ہیں  ہمیں ڈر ہے کہ کہیں وہ خود بھی type stereo نہ بن جائے ۔ کیونکہ وہ اپنی ذات کی نفی کرتا ہے اور دنیا کومخصوص زاویہ سے دیکھتا ہے ۔وہ اس شخص کو ووٹ دیتا ہے جو اس کے معیار کے مطابق ہوتا ہے ۔ وہ ویسی چیزیں خریدتا ہے ۔ جیسے دوسرے پسند کرتے ہوں ۔ ایسی زندگی گزارتا ہے جو دوسرے اس کے لیے پسند کریں ۔ ایسے آدمی کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیں حیران نہیں کرتا ۔

 

 

 ایسے type stereo لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہےان لوگوں کے متعلق خیالات کا تیسرا تیز بہاؤ کی وجہ سے ایک type stereo شخص کے بدلے دوسرا شخص آ جاتا ہے ۔ تبدیلی کا عمل بہت آہستہ آہستہ ہوتا ہے ۔ ہمارے

 ذہنوں میں چسپاں تصویروں میں حقیقت کا رنگ آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھندلا پڑ جاتا ہے ۔

 آہستہ آہستہ ہم جان جاتے ہیں کہ یہودی کالے اور کیتھولک اور پروٹسٹنٹ سب عام آدمی جیسے ہیں ۔ یہ کہنا بھی type stereo کے زمرے میں آتا ہے ۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک الگ الگ شخصیت کا مالک ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ہم یہ بھی جانتے

 ہیں کہ ہم نے type stereo کے پلے کو چھوڑ دیا ہے جب تک ہم کسی کو یہ کہتے ہوئے یہ نہ سنے " اچھا ہوسکتا ہے ، ایسا ہی ہو ۔"

 کیا ہم اس سے نجات پا سکتے ہیں ؟ بے شک ! کیوں نہیں ۔

 1سب سے پہلے ہمیں ان تصاویر سے آگاہ ہونا ہوگا کہ جو ہم نے اپنے ذہنوں میں مخصوس گروپ کے تعلق چسپاں کر رکھی ہیں ۔ دوسروں کے ذہنوں میں بلکہ پوری دنیا کے ذہنوں میں ان تصاویر کو جاننا ہوگا ۔

 2 ۔ ہمیں تمام استثناء کیے گئے اپنے تمام فیصلوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھنا ہوگا ۔

 -3 میں ہر گروپ کے لوگوں کی تعریف کرنا ہوگی ۔

 جب ہم دنیا میں موجود لوگوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم لوگوں کا تجز یہ نہیں کرتے بلکہ ہم صرف ان حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں جو ہمارے ذہنوں میں پیوست ہوتے ہیں ۔

بشکریہ اردو کالمز