502

میں نے کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا 

 

میں اس وقت کو یاد تو نہیں کرنا چاہتا لیکن بھولنا بھی میرے بس میں نہیں ۔ میری عمر اس وقت بائیس سال تھی اور آج جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں تو وہ تمام مناظر میری آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرع چلنے لگتے ہیں ۔ میں اس درد کو ویسے ہی محسوس کر سکتا ہوں جیسے اس وقت کر سکتا تھا ۔ مجھے اچھی طرع یاد ہے جب میرے حواس بحال ہوے اور میں نے لمبا سانس لینے کی کوشش کی تو میرے منہ سے ایسے گرد نکلی جیسے میں نے منہ میں مٹی بھر رکھی ہو ۔ 

کچھ دیر تو میں یہ سمجھ ہی نہیں پایا کے یہ ہوا کیا ہے اور جب مجھے پتہ چلا کے یہ زلزلہ تھا تو مجھے اپنے گھر والوں کی فکر ہونے لگی ۔ اور میں نے گھر کی طرف چلنا شروع کر دیا ۔ میں اپنے گھر سے پانچ کلومیٹر دور تھا ۔ جب میں آگے بڑھتا گیا اور تبائی کے مناظر دیکھے تو مجھے ایسا لگتا گیا کے اب کچھ بھی نہیں بچا ۔ مجھے لوگ ادھر ادھر بھاگتے نظر نہ آتے تو شاید کچھ دیر کیلئے میں یہ یقین بھی کر لیتا کے مظفرآباد میں بچنے والا میں واحد انسان ہوں ۔ 

مظفرآباد میں واقع قدیمی قلعہ دریا میں گر گیا تھا اور دوسری طرف یہ نیلم ہوٹل کی طرف روڈ پر پڑا تھا ۔ اور دریا بلکل خشک ہو گیا تھا ۔ہر طرف چیخ و پکار تھی ۔ اگر عام حالت میں راستے میں کسی کو مشکل میں دیکھیں گے تو ضرور رک کر اس کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے یا کم از کم تسلی کے دو چار الفاظ تو بول ہی دیں گے ۔ لیکن اس وقت مدد کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں سب مدد مانگنے والے تھے ۔ جو لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے وہ بھی مدد کے طالب تھے جن کو اپنے پیارے نہیں مل رہے تھے اور اگر وہ جانتے بھی تھے کے وہ کس دیوار کس چھت کے نیچے ہیں تو بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے ، وہ دوسروں کو مدد کیلئے پکار رہے تھے اور جن کو وہ پکار رہے تھے وہ خود یا مدد کیلئے پکار رہے تھے یا اپنوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ وہ بالکل ایک قیامت کا منظر تھا اور ہر کوئی مدد مدد چلا رہا تھا لیکن مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ 

جس وقت زلزلہ آیا میں ایک پرائیویٹ ہسپتال جو کے مظفرآباد شہر کی بغل چہلہ بانڈی میں واقع ہے موجود تھا ۔ میں گیٹ کے پاس ہی تھا ۔ میرے سامنے ایک آدمی گیٹ سے اندر بائیک گزارنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن جب زلزلہ شروع ہوا وہ بائیک کو گیٹ کے درمیان چھوڑ کے باہر بھاگا اور اس کے پیچھے میں نے بھی نکلنے کی کوشش کی ۔ میں گیٹ کے باہر نکلنے میں بہت مشکل سے کامیاب ہوا ۔ ابھی میں نے گیٹ کو تھام رکھا تھا کے بلڈنگ گر گئی اور مجھے صرف چیخوں کی آواز سنائی دی جو آج بھی اس وقت کو یاد کر کے میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔ 

راستے میں بکھری لاشیں ، زخمیوں کی چیخیں ، گرد و غبار ہر چیز بکھری ہو اور ہم اس کے درمیان میں چل رہے ہوں ۔ ہر چیز ختم نظر آ رہی ہو ۔ آپ کو محسوس ہو رہا ہو کے جیسے یہ لوگ پڑے ہیں ویسے ہی آپ کے گھر والے آپ کے رشتہ دار دوست بھی کہیں پڑے ہوں گے تو آپ کسی کی کیا مدد کر سکیں گے آپ تو اپنے گھر پہنچنے کی کوشش کریں گے ۔ اور جیسا کے میں نے پہلے عرض کیا کے کوئی ایک دو کو مدد کی ضرورت ہو تو آپ اس کیلئے کچھ نہ کچھ کریں گے جب ہر کوئی آپ کو پکار رہا ہو یا آپ کو محسوس ہو رہا ہو کے ساری دنیا آپ کو بلا رہی ہے تو آپ کس کس کی سنیں گے ۔ میرا دل درد اور دکھ سے بھر گیا تھا لیکن نہ میری آنکھ سے آنسو نکل رہے تھے اور نہ میں کسی کیلئے کچھ کر پا رہا تھا 

آپ کبھی اس کیفیت کو محسوس نہیں کر سکتے جب تک آپ اس کیفیت سے گزرے نہ ہوں ۔ میں آج کنٹرول لائن کے ساتھ مکین ہوں جب میں مظفرآباد شہر میں تھا اور انڈین آرمی کی شہری آبادی پر فائرنگ کی خبریں نیوز چینل پر ایسے سنتا تھا جیسے یہ کوئی ایسی خبر ہو جس کو نشر کرنا ضروری نہ تھا ۔ لیکن آج میں یہاں ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کے کنٹرول لائن پر رہنے والے لوگ جس جوانمردی اور ہمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ان کو ملکی میڈیا پر چند سیکنڈ کی کوریج کی نہیں بلکہ ایک مین سٹریم چینل کی ضرورت ہے جو ان کی مشکلات سے گھری ذندگی ان کی ہمت ان کے حوصلوں کو بیان کر سکے ۔ 

بات زلزلے کی ہو رہی تھی اگر کسی حادثے میں آپ کا یا میرا کوئی پیارا فوت ہو جاے تو ہم درد سے پھٹنے لگتے ہیں ، لیکن وہ وقت ایسا تھا کے ہر کسی کا کوئی نہ کوئی اس حادثے کی نظر ہو گیا تھا ، جب آنسو صاف کرنے والا کوئی نہیں تھا تو کسی نے آنسو بھائے ہی نہیں۔ اور تھوڑی ہی دیر تک ہر کوئی سمجھ چکا تھا کے اس کی مدد کو کوئی نہیں آنے والا اس لیے ہر ایک نے خود ہی ہمت کرنی شروع کر دی تھی ۔ گری چھتوں کے نیچے سے کئی لوگ چیخ رہے تھے جب کے اس چھت کو کاٹنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا ۔ زرا محسوس کریں کے آپ کے پیارے چھت کے نیچے سے آپ کو آوازیں دے رہے ہیں اور آپ ادھر ادھر بھاگتے ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے اور آپ کسی دوسرے کو مدد کیلئے آواز دیتے ہیں جو خود اسی کیفیت میں مبتلا ہے جس میں آپ ہیں اور دوسری طرف آپ کے پیارے آپ کو پکار رہے ہیں جو آپ کے رحم و کرم پر ہیں ۔ وہ وقت وہ کیفیت ویسی ہی محسوس نہیں کی جا سکتی لیکن آپ اس حالت کے قریب پہنچ سکتے ہیں ۔ پہلا دن تو چیخ و پکار میں گزر گیا ، مواصلات کا کوئی نظام نہیں تھا ہم صرف افوائیں سن سکتے تھے ۔ میرا خاندان وادی نیلم میں تھا اور ہمیں کبھی یہ اطلاع ملتی کے وادی کے دونوں پہاڑ آپس میں مل گئے ہیں اور وہاں ایک میدان بن گیا ہے اور کبھی بتایا جاتا کے اوپر کوئی نہیں بچا ،دوسرے دن ہم نے نیلم جانے کی کوشش کی لیکن قریب ہی ہمیں پتہ چل گیا کے آگے جانا ممکن نہیں اور ہم نے واپس آ کے شہیدوں کو دفنانے کے کام میں مدد کرنی شروع کر دی اور اپنے خاندان کے بارے میں کہہ دیا کے ان کا اللہ ہی وارث ہے ۔ مجھے یاد ہے کے ہم نے اپنے ایک کزن اور اس کے دوست کا جست خاکی دوسرے دن ملبے سے نکالا تو ان دونوں کی گود میں قران رکھا تھا اور وہ اس طرع بیٹھے تھے کے ان کے سر کھلے قران پہ رکھے تھے ۔ وہ دونوں مدرسے کے فاضل تھے اور اس رات مدرسے ہی سے گھر آئے تھے ۔ پھر ہم نے ان کو اور چھ دوسرے افراد کو ایک ہی قبر میں دفن کیا ۔ 

یہ وہ دن تھا جب دفتر جانے والے اکثر واپس نہیں آئے سکول جانے والے بچوں کی اکثریت واپس نہیں آئی ۔ والدین اپنے بچوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے اور کئی بچے والدین کی تلاش میں تھے ہسپتالوں کے باہر زخمیوں پڑے تھے علاج کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ بلکہ اکثر علاج کرنے والے بھی مدد کیلئے پکار رہے تھے ۔ سی ایم ایچ میں آرمی کے چند جوان جو اس حادثے میں بچ گئے تھے وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کی کوشش کر رہے تھے جبکہ ان کے پاس سامان بھی موجود نہیں تھا ۔ سی ایم ایچ کا میڈیکل سٹور بلڈنگ بیٹھ جانے کی وجہ سے دب گیا تھا ۔ یونیورسٹی کالج گراونڈ زخمیوں سے بھر گیا تھا ۔ 

پانچویں دن جب سڑکیں کچھ نہ کچھ بھال ہوئیں تو ہم نے ایک نئی چیز کو دیکھا ۔ ہر طرف سے مدد آنا شروع ہو گئی ہم نے ان لوگوں کی محبت ہمدردی اور جزبے کو دیکھا جو اس سانحے سے متاثر نہیں ہوے تھے ۔ یہ بھی ہمارے لیے ایک نئی چیز تھی ۔ میں مذہبی گھرانے سے ہوں اور والد صاحب نے ریلیف کا سامان لینے سے منع کر دیا تھا کیونکہ ہم مہینے کا راشن یکم کو لے آتے تھے تو ابھی ہمارے پاس بیس دن کا راشن موجود تھا اور ان کا خیال تھا کے یکم تک حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور یہ سامان ان لوگوں کیلئے ہے جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہم اس کے اہل نہیں ان کی غیر موجودگی میں ہم نکلتے اور کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے لیکن شرم اور جھجک کی وجہ سے کھجور کے پیکٹ یا دودھ کے پیکٹ سے آگے نہ جا پاتے ۔ لیکن ہم دیکھ سکتے تھے کے ضرورت کی ہر چیز آ رہی ہے لیکن مقامی لوگوں کی بدنظمی کی وجہ سے وہ سامان حق دار تک کم ہی پہنچ رہا تھا اور کئی بار ضائع بھی ہو جاتا تھا ۔ 

کئی لوگوں کا خیال تھا کے مظفرآباد دوبارہ آباد نہیں ہو گا لیکن وہ لوگ جو ہم سے بچھڑ گئے وہ تو واپس نہیں آئے لیکن یہ مظفرآباد اس مظفرآباد سے کئی گنا بہتر ہے ، اس کی رونقیں پہلے سے ذیادہ ہیں اس کا انفراسٹریکچر پہلے سے بہتر ہے اس کے ادارے پہلے سے بہتر ہیں ۔ اور یہ سب کچھ مقامی اور بین القوامی امداد سے ہی ممکن ہوا ہے اور ہم آج بھی ان لوگوں کے ان اداروں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ۔ ہم جب تک اس زخم کو محسوس کرتے رہیں گے ہم ان کے اس جذبے کو اس اخلاص کو بھی یاد رکھیں گے ۔ 

بشکریہ اردو کالمز