495

کونسا اسلام نافذ کریں ؟

 

مرحوم اشفقاق احمد صاحب اپنے دوست سے ملنے گے اور کہنے لگے کہ! میں کافی عرصے سے جمعہ پڑھنے کے لیئے مساجد بدل رہا ہوں، لیکن کسی بھی مولوی کی تقریر میں مزا نہیں آرہا۔اشفاق صاحب کے دوست سمجھے شاید اشفاق صاحب مولویوں کی بے تکی تقریروں سے تنگ آئے ہوئے ہیں، جواباًکہنے لگے ،آپ یہاں ڈیفنس میں آکر جمعہ ادا کیا کریں، یہاں سب مولوی ایک ڈسپلن کے تحت گفتگو کرتے ہیں اور خاموشی سے نماز پڑھاتے ہیں۔ اشفاق صاحب نے کہا، نہیں یار! مسٔلہ یہ نہیں، دراصل مجھے کوئی ایک مولوی بھی ایسا نہیں ملا جو کہتا ہو کہ سؤر کا گوشت کھانا حلال ہے۔

 

یہ ایک ایسی کڑوی حقیقت ہے جسے مملکت خداداد کا سیکولر اور لبرل طبقہ ماننے سے انکاری ہے ان کی نزدیک مولوی اور منبر فرقہ واریت اور انتشار پھیلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہا۔ اہل مذہب اگرچہ یہ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز میں اسلامی قوانین کا بول بالا ہو تاہم پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشوار ایسا ہر گز نہیں چاہتے جب بھی اسلام نافذ کرنے کی بات ہو تو یہ دانشور طنزاً پوچھتے ہیں کہ ملاں جی کونسے فرقے کا اسلام نافذ کیا جائے؟ اہل تشیع  , اہلحدیث ,دیوبندی یا پھر بریلوی مسلک کا ؟

 

آپ کسی بھی مسلک کی فقہ کی کتابوں کا مطالعہ کر لیں  کسی بھی مسلک نے زنا کو جائز قرار نہیں دیا , کسی بھی فرقے نے رشوت کا لین دین جائز قرار نہیں دیا, شریعت محمدی میں ایک دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں کوئی بھی فرقہ یہ نہیں کہتا کہ چھ نمازیں فرض ہیں ,کسی بھی مسلک نے یہ فتوی صادر نہیں کیا کہ رمضان کے روزے رجب میں رکھیں جائیں اور عیدالفطر محرم الحرام میں منائی جائے ,ہر فرقہ سود کو اللہ تعالی سے جنگ قرار دیتا ہے اور سب اس بات کے قائل ہیں کہ وضو کے چار اور غسل کے تین فرائض ہیں الغرض جتنے بھی شریعت محمدی میں قوانین ہیں تمام مسالک ان قوانین پہ متفق نظر آتے ہیں اور سب سے اہم تجارت اور لین دین جس پر قوموں کی معیشت کا انحصار ہوتا ہے جو اسلام نے تجارتی قوانین بنائے ہیں ان پر بھی تمام کا اتفاق ہے۔ہاں اگر اختلاف ہے تو عبادات کے طریقے میں تھوڑا بہت اختلاف ہے۔ جو دانشور اس بات پہ معترض ہیں کہ کونسے فرقے کا اسلام نافذ کرنا چاہیے تو ان کے لیے جواب ہے کہ جتنا اسلام مشترک ہے اتنا نافذ کر دیجیے۔

 

اسلامی قوانین کا نفاذ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جس طرح آج امت مسلمہ زوال پزیر ہے اگر اسلام کے بتائے طریقے پہ گامزن ہو جائیں تو اب بھی ہم عروج کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔آپ امت مسلمہ کا زوال ملاحظہ کیجیے کہ اس دنیا جس میں اس وقت امریکن کوالٹی ,برٹش کوالٹی ,یورپی معیار ,جاپانی ,چینی حتی کہ بھارتی معیار تک موجود ہے اس میں اسلامی معیار کا نام تک موجود نہیں,ہم جب بھی بازار جاتے ہیں تو امپورٹڈ کوالٹی مانگتے ہیں مصنوعات اٹھا کر ان کے پیندے پر لگی مہر دیکھتے ہیں اگر وہاں کسی اسلامی ملک کا نام ہو تو واپس شیلف پہ رکھ دیتے ہیں۔اور اگر اس کے برعکس ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو یہ معلوم ہو گا کہ مسلمان تاجروں کا مال غیر مسلم ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے اور بہت سے غیر مسلموں نے مسلمان تاجروں کا کردار اور ایمانداری دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔ لہذا لنڈے کے لبرل اور سیکولر دانشوروں سے عرض ہے کہ آپ اپنے طنز اور فلسفے کو اپنے تک محدود رکھیے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے آج نہیں تو کل ان شاء اللہ یہاں اسلامی قوانین ہی لاگو ہوں گے اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک سپر پاور بن کر ابھرے گا۔

بشکریہ اردو کالمز