233

ظلم اور بے رحمی کی نفسیات !

محافظوں کے ہاتھوں ایک اور بے گناہ شخص کا قتلِ عمد ثابت ہو گیا ہے جس نے پاکستانیوں کے احساسِ عدم تحفظ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں اسامہ ستی نامی نوجوان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی انکوائری رپورٹ سامنے آ چکی ہے۔ اس رپورٹ میں دل دہلا دینے والے انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مقتول نوجوان کا پولیس سے کوئی مقابلہ نہیں ہوا تھا۔ پولیس نے اسامہ کو جان بوجھ کر قتل کیا۔ اس پر چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ شدید زخمی اسامہ کو طبی امداد دینے میں بھی رکاوٹ پیدا کی گئی اور اس مظلوم کے مرنے کا انتظار کیا جاتا رہا۔ الامان والحفیظ۔ اس منظر کا سوچیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

یہ پاکستان کا پہلا جعلی پولیس مقابلہ نہیں ہے۔ ایسے جعلی پولیس مقابلے پاکستان کے تمام علاقوں میں کم و بیش روزانہ ہوتے ہیں۔ کچھ جعلی مقابلوں پر میڈیا میں زیادہ شور ہوتا ہے اور حکام ان کا نوٹس لینے لگتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ میڈیا اور حکمرانوں کے نوٹس میں آنے والے ہر واقعہ پر مقتولین اورمتاثرین کو انصاف ملے۔ کچھ دنوں کے شور شرابے کے بعد معاملات دب جاتے ہیں۔ جیسا کہ کراچی میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے پانچ مزدوروں کے ساتھ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پولیس کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کے قتل کے زیادہ واقعات رونما ہونے لگے ہیں اور یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے۔ پولیس نہ صرف خوف کی علامت بن چکی ہے بلکہ اس کی وجہ سے عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ بچوں کے گھر سے باہر جانے پر ماں باپ کو سب سے زیادہ خوف دہشت گردوں سے نہیں، پولیس سے ہوتا ہے۔جعلی پولیس مقابلوں کے ساتھ ساتھ جعلی مقدمات میں زندگی تباہ ہونے کا بھی خوف ہوتا ہے۔ آخر ان لوگوں کی نفسیات کیا ہے، جو اس قدر بے رحمی اور ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں؟ یہ کوئی نفسیاتی یا ذہنی مریض ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ اپنے گھر والوں، قریبی افراد اور طاقتور لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے۔ وہ کمزور پر اپنے قہر، غصے اور اختیارات کو آزماتے ہیں۔ یہ نو آبادیاتی ورثے والی پولیس کا خاصا ہے۔ میں نے امریکا میں پولیس والوں کی نفسیات کا مطالعہ کیا ہے۔ سفید فام پولیس والے سیاہ فام لوگوں کے بے گناہ قتل اور ان پر ہر قسم کے ظلم کو امریکا میں قانون کی عمل داری کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں جبکہ سفید فام مجرموں کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی مہذب ہوتا ہے۔ اس رویے کو دیکھ کر ہم تیسری دنیاکے لوگ رشک کرتے ہیں۔ خود سیاہ فام پولیس والے بھی اپنے ہی سیاہ فام لوگوں کے لیے درندے بن جاتے ہیں۔ یہ امریکا کے نسل پرستی والے نظام کی نفسیات ہے۔ ہمارے پولیس والوں کی نفسیات اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور خوفناک ہے۔

پاکستان جیسی سابقہ نو آبادیاتی ریاستوں میں اس کی بہت زیادہ خطرناک شکلیں ہیں۔ نوآبادیاتی حکمرانوں کی مقامی لوگوں کو انسان نہ سمجھنے کی سوچ بھی ذہنوں کو ابھی تک جکڑے ہوئے ہے۔ انگریزوں کے تخلیق کردہ بالادست طبقات کی عام شخص سے نفرت بھی پاکستان کے ریاستی اداروں کی گھٹی میں شامل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کے ضابطہ کو نافذ کرنے والی سویلین فورس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس والے اپنی زیادتیوں کا سب سے زیادہ نشانہ کمزور نسلی اور لسانی گروہوں اور کمزور طبقات کے لوگوں کو بناتے ہیں۔ جب سے داخلی امن وامان میں فوجی اور نیم فوجی اداروں کے کردار میں اضافہ ہوا ہے، پولیس افسران اپنی کمان کی بجائے ان اداروں کی طرف دیکھنے لگے ہیں اور ان کے آگے سرخرو ہونے کے لیے جعلی پولیس مقابلے اور کارروائیاں کرنے لگے ہیں۔ پولیس کا اپنا کمانڈ سسٹم کمزور ہو گیا ہے۔ پھر مقتدر اداروں کی سیاسی اور ریاستی امور میں غیرآئینی مداخلت نے پولیس کو مزید بے باک اور احتساب سے مبرا بنا دیا ہے۔ ایک چھوٹے رینک والا پولیس آفیسر اور ایک عام سپاہی بھی اسی نفسیات کے ساتھ کام کرتا ہے اور اس کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے۔

پولیس کے علاوہ تیسری دنیا کے ملکوں کی دیگر فورسز کی نفسیات بھی یہی ہوتی ہے لیکن اس نفسیات کو بے رحمانہ استبدادی نظام کے نچلی سطح پر نفاذ کے لیے پولیس جیسی سویلین فورسز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پولیس ہی کچلے ہوئے اور محروم طبقات اور گروہوں کو دبا کر رکھتی ہے اور ان کو اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھانے دیتی۔ پولیس لوگوں کو اُلجھا کر رکھتی ہے۔ اگر پولیس زیادتیاں نہ کرے اورلوگوں کو دبا کے نہ رکھے تو اُوپر کا استبدادی ڈھانچہ اپنی بنیادیں کھو دے اور دھڑام سے گر جائے۔ کبھی اس تناظر میں پولیس ریفارمز نہیں کی گئیں، جن کی آج اشد ضرورت ہے۔ پولیس نے بلا شبہ امن و امان کے لیے بے پناہ قربانیاں بھی دی ہیں لیکن پاکستان کے تمام صوبوں کی پولیس کا نظام اپنے جوہر میں بہت ظالم ہے۔ یہ استبدادی نظام کا حقیقی مظہر ہے۔ پولیس کے بے پناہ اختیارات میں بے رحمانہ کٹوتی کہ ضرورت ہے۔ پولیس کو سیاسی نظام کے تابع کرنا، اسے جوابدہ بنانا اور اس کے احتساب کا موثر نظام قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت کو روکنے کے لیے پولیس کو بے لگام چھوڑ دیا جائے، وہ دراصل پولیس کے ذریعہ غیر سیاسی قوتوں کے استبدادی نظام کو مضبوط کرنے کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔

SOURCE JANG 

بشکریہ جنگ نیوزکالم