کوئٹہ کی ہزارہ برادری کا نام سُنتے ہی زہن میں “ مظلومیت “ زہن میں آجاتی ہیں ، آہ و بکا ، خون میں لتھڑی لاشیں ، دھماکوں میں اُڑے انسانی اعظاء ، گلا کٹی لاشیں اور حکمرانوں اور ایجنسیز کی بے حِسی زہن میں آجاتی ہے ، یہ وہ معصوم انسان ہیں جو کوئٹہ اور اس کے گرد ونواح میں آباد ہیں اور شعیہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، زیادہ تر آبادی کا تعلق مزدور طبقہ سے ہے یعنی غریب طبقہ ہے ۔ پچھلی دو دہائیوں سے ان کا ظالمانہ اور سفاکانہ قتل عام کیا جارہا ہے اور انہیں ٹارگٹ کیا جارہا ہے ۔ اس کے کیا محرکات ہیں اور اس کے پیچھے کن عناصر کا ہاتھ اور سازشیں ہیں یہ سمجھ سے یوں بالا تر ہیں کہ بلوچستان میں بہ نسبت دوسرے صوبوں کہ مزہبی انتہا پسندی یا یوں کہہ لیں کہ مزہبی جڑیں اتنی گہری نہیں ہیں تو یہاں ایک خاص مزہبی فرقہ کو کیوں مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے؟
افغانستان میں امریکہ کے حملہ کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی اچانک بڑھ گئ اور پچھلے بیس سالوں میں جہاں مختلف دہشت گردانہ حملے ہوئے وہیں سب سے زیادہ کوئٹہ میں بسنے والے ہزارہ شعیہ مسلمانوں کو ظالمانہ اور انتہائ بے رحمانہ انداز میں ٹارگٹ کیا گیا ،
اس کے دو مقاصد ہیں ! اوّل بلوچستان جو عرصہ دراز سے
فوجی آپریشن کی زد میں ہے ، یہاں علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں ، اس ہی کی آڑ میں سینکڑوں بلوچوں کو غائب کردیا گیا ہے اور سینکڑوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا ہے ، ستّر کی دہائ میں بُھٹّو کے دور میں پہاڑوں پر جو فوجی آپریشن شروع ہوا تو وہ بڑھتے بڑھتے ہنوز جاری ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں انارکی اور محرومی کے سائے گہرے ہوتے گئے، بلوچستان کو ہمیشہ دوسرے صوبوں کی نسبت پیچھے رکھا گیا بلکہ یہاں ترقی کوسوں میل دور رہی ۔ بلوچستان صوبہ سے زیادہ فوجی چھاؤنیوں کا منظر پیش کرتا ہے ۔ اس انارکی اور محرومی کا فائدہ بھارت نے اٹھایا اور ایران کے راستے وہاں اپنے پنجے گاڑنے شروع کردئے اور وہاں دہشت گردی شروع کرادی ، تابوت پر آخری کیل امریکہ کا افغانستان پر حملہ ثابت ہوا کیونکہ افغانیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کو افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ دیا ، یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ بھارت تو آپ کا ازلی دُشمن ہے ہی ، افغانستان اور ایران بھی آپ کا دوست نہیں ہے ! بلوچستان کی سرحدیں ان دو ممالک سے ملتی ہیں ، ہمیں بھارت سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا ان دو مسلم ممالک سے ہے ! بلوچستان میں ایران اور افغانستان کا عمل دخل پاکستان سے زیادہ ہے ، پاکستان کی فوج کو بھی پتہ ہے کہ عملاً بلوچستان ان ممالک کی گرفت سخت ہوتی جارہی ہے اور بھارت اس کی فنڈنگس کرتا ہے ، فوج نے یہاں اُلٹے اقدامات شروع کردئے اور بلوچوں کو ہی اغواء کرنا شروع کردیا ، لاشیں پھینکنی شروع کردی گئیں تو یہاں غصہ مزید بڑھ گیا بلکہ غصہ شدید نفرت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ، بلوچستان میں ریاست یا حکومت کی رِٹ نظر نہیں آتی بلکہ علاقوں کو فوجی چھاؤنیوں میں بدل دیا ، بلوچستان کی صوبائ حکومت ہمیشہ کٹھ پُتلی حکومت رہی ہے کیونکہ پورے بلوچستان میں قبائلی اور سرداری نظام اس قدر مظبوط ہے کہ ہر علاقہ میں کسی نہ کسی سردار کی اپنی حکومت ہے ، جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اب اس خطہ کی اہمیت یوں بہت زیادہ بڑھ گئ کہ پاک چائنہ اشتراک سے “ سی پیک “ پراجیکٹ شروع کیا گیا اور گوادر پورٹ کی اہمیت خطہ میں بہت زیادہ بڑھ گئ ، بھارت کو ہی نہیں ایران کو بھی یہ بات ہضم نہیں ہورہی اور یہی ممالک نہیں بلکہ کئ اور ملکوں کو بھی پریشانی شروع ہوگئ ،
افغانستان کبھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں رہا اور نہ ہی ایران اور ان دونوں ممالک کے تعلقات بھارت سے بہت زیادہ مظبوط ہیں اور یہی وہ بڑی وجہ ہے کہ افغانستان میں اس ٹرائیکا کی وجہ سے شورش بڑھائ گئ ، قبائل اور سردار اتنے مظبوط ہیں کہ عملاً اور حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بلوچستان پاکستان کا حصہ شاید کبھی رہا ہی نہیں بلکہ یہاں عمودی حکومتیں ہی ہیں ۔ پاک فوج کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بلوچستان کراچی نہیں ہے کہ اسے آسانی سے فتح کرلیا جائے گا اور اسے ایک مقبوضہ علاقہ بنادیا جائے گا ۔ یہاں انہیں لوہے کے چنے چبانے پڑرہے ہیں دوسری جانب پاکستان کی فوج کو گانے اور ڈرامے ریلیز کرنے سے فُرصت نہیں ہے ، آئ ایس پی آر ہر پانچویں چھٹے دن ایک آدھ گانا یا ڈرامہ ریلیز کردیتا ہے ، اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاک فوج آپ کی جانوں کی ضامن ہے ، دوسری جانب فوج کو کاروبار بڑھانے سے بھی فُرصت نہیں ہے ، سیمنٹ ، بسکٹ ، شادی ہالز ، پیٹرول پمپس ، ٹرانسپورٹ ، اینٹوں کے بھٹوں سے فُرصت نہیں ہے ، یہ واحد ملک ہے کہ جسکے چار سابقہ آرمی چیف باہر ملکوں میں رہائش پزیر ہیں ،
گانوں ترانوں اور پروگرامز میں “ آئ ایس آئ “ کو دُنیا کی بہترین اینٹیلی جینس ایجنسی ظاہر کیا جاتا ہے مگر بلوچستان میں دہشت گرد آسانی سے دہشت گردی کرکے چلے جاتے ہیں اور یہ لکیریں پیٹتے رہ جاتے ہیں ،
ہزارہ شعیہ برادری کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ یہ بے چارے ایک آسان ٹارگٹ ہیں ان کو نشانہ بناکر دو طرفہ فائدہ اٹھایا جارہا ہے ایک طرف بلوچستان کو کمزور کیا جارہا ہے تو دوسری جانب پورے ملک میں شعیہ سُنی فسادات کی طرف لے جانے کی کوشش کی گئ !
پچھلے قریباً بیس سالوں میں ہزارہ شعیاؤں کو متعدد بار دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ، مچھ میں گیارہ ہزارہ شعیہ مسلمانوں کے بے دردی سے انکے گلے کاٹے گئے
اور کوئٹہ میں پوری ہزارہ برادری سراپا احتجاج بن گئ اور احتجاجاً شہداء کی میتوں کو ہائ وے پر رکھ کر سات دنوں تک دھرنا دیا اسکے کراچی اور اور کچھ دیگر شہروں میں بھی احتجاج ہوا ، حالانکہ اس اندونہاک واقعہ پر پورے ملک میں احتجاج ہونا چاہئے تھا اور تمام مسالک کو ان مظلوموں کا ساتھ دینا چاہئے تھا ، فی الحال تو ماضی کی طرح اس حکومت نے بھی انکے مطالبات سُن کا ان کی حمایت کا وعدہ کیا ہے مگر صرف حامی بھرنے سے کچھ نہیں ہوگا اب حکومت اور ایجنسیز کا اس کا سدباب کرنا ہوگا ، ہزارہ برادری پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا اس سے پہلے انہیں پچیاسی سے زائد دفعہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ،
ہزارہ قوم کی تاریخ بہت پُرانی ہے ان کا تعلق چنگیز خان کی نسل سے ہے اور کچھ تاریخ تُرکوں سے جا ملتی ہے ، افغانستان کے جن چار صوبوں میں ہزارہ قوم آباد تھی یا اب بھی ہے ان صوبوں کو ہزارہ جات کہا جاتا ہے اور زیادہ آبادی افغان صوبہ بامیان میں آباد تھی ، بلوچستان سے ان کا تعلق بھی صدیوں پرانا ہے ، انگریزوں کے دور میں مری قبیلہ سے کوئٹہ میں یہ علاقہ جہاں یہ آباد ہے باقاعدہ لیز پر حاصل کیا تھا اور آباد ہوئے تھے ، سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد جب طالبان نے کنٹرول حاصل کیا تو صوبہ مزار شریف میں دو ہزار سے زائد ہزارہ شعیاؤں کو قتل کیا گیا اور باقی جان بچاکر کوئٹہ ہجرت کر گئے ، امریکہ سے جنگ کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر ان پر مصیبت آنی شروع ہوگئ اور انہیں نشانہ بنایا جانے لگا
امریکہ نے جب افغانستان میں عملاً مداخلت کی اور وہاں حکومت تشکیل دی گئ تو وہاں تمام ہی قبائل کو حکومت میں حصہ دیا گیا اور یوں ہزارہ قبیلہ کو بھی حکومت میں اہم عہدہ دئے گئے جو طالبان کو سخت ناگوار گزرا ،
اس کے بعد ان پر افغانستان میں حملے شروع ہوگئے اور بعد میں پاکستان میں بھی ان کو نشانہ بنایا جانے لگا ،
شروع میں تو یہ علاقائ طاقت کی لڑائ تھی بعد میں
فرقہ واریت کی شکل اختیار کرگیا ۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے قتل کے پیچھے افغانستان اور بھارت کا ہی ہاتھ ہے مگر کوتاہیاں ہماری اپنی ایجنسیوں کی ہیں ۔
کوئٹہ میں ہزارہ شعیاؤں کا قتل پچھلی دو دہائیوں سے تو ہو ہی رہا ہے مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس کا آغاز سابق آمر ضیاءالحق نے کیا تھا ، ایران میں انقلاب کے بعد ضیاء الحق کو ڈر تھا کہ اس کے اثرات پاکستان تک نہ پہنچ جائیں تو ضیاء الحق نے بلوچستان مین محرم کے جلوسوں پر پابندی عائد کردی ، 6 جولائ 1985 کو ہزارہ شعیاؤں نے دسویں محرم کا جلوس نکالا تو پاکستان فوج نے ان پر فائرنگ کردی اور چالیس سے زائد عزا داران کو شہید کردیا ،
اس کے بعد تو یہ سلسلہ رُک گیا مگر 2002 میں مشرف کے دور حکومت میں یہ نہ رُکنے والا سلسلہ پھر شروع ہوگیا ،افغانستان میں جو قتل و غارت شروع ہوئ اور ہزارہ شعیاؤں کو قتل کرنا شروع کیا تو وہ قتل و غارت گردی دراز ہوتے ہوتے بلوچستان تک پہنچ گئ اور متواتر ان کو نشانہ بنایا جارہا ہے ،
سال 2002 میں کوئٹہ کی سریاب روڈ پر پولیس ٹریننگ اسکول کے چودہ کیڈٹس کو ٹارگٹ کرکے گولیاں ماریں اور انہیں قتل کیا
سال 2003 میں چار جولائ کو کلاں پرنس روڈ ، امام بارگاہ پر خودکش حملہ ہوئے اور اس میں 55 افراد ہلاک ہوئے
سال 2004 میں مارچ کی دو تاریخ کو یوم عاشور کے جلوس پر حملہ کیا گیا اور اس میں 86 افراد ہلاک ہوئے۔
سال 2010 میں تین ستمبر کو القدس ریلی پر بم دھماکہ سے 86 افراد ہلاک ہوئے ۔
سال 2013 ہزارہ برادری کے لئے بدترین سال رہا جب دس جنوری ، سولہ فروری اور جون کے مہینوں میں ان پر دہشت گردانہ حملے ہوئے جس میں ڈھائ سو سے زائد بے گناہ افراد شہید ہوئے
سال 2014 میں زائرین کی بس پر حملہ کیا گیا جس میں چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے
سال 2017 میں کاسی روڈ پر قاتلانہ حملہ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے
سال 2018 میں سات افراد کو ہلاک کیا گیا
اور سال 2019 میں گیارہ اپریل کو ہزار گنجی سبزی مارکیٹ میں بم دھماکہ میں لگ بھگ بائیس افراد ہلاک ہوئے اور اب اس سال کے شروع میں ہی مچھ کے علاقہ میں کوئلہ کی کان کے ہزارہ مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا ۔
یہ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں جس میں سینکڑوں شدید زخمی بھی ہوئے ۔ اور ستم یہ کہ ان کا پرسان حال کوئ نہیں ہے اور یہ غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ، ایک یا دو حملوں کے بعد ہماری ایجنسیز کو جاگ جانا چاہئے تھا اور دُشمن کے بچوں کو پڑھانے کے بجائے اپنے بچوں کی جانیں بچانی چاہئے تھیں مگر ایسا نہیں ہوا ۔
تماشہ یہیں ختم نہیں ہوا ، غریبوں کی اولادیں ماری گئیں ، ان کے گلے کاٹ دئے گئے اور ہمارے سیاسی گِدھ لاشیں دیکھتے ہی آسمان سے نیچے اُتر آئے ، اپنے اپنے دور حکومت میں کبھی انکی داد رسی نہیں کی مگر جب اس دفعہ ہزارہ برادری نے دھرنا دیا تھا یہ سیاسی مگرمچھ اپنا اپنا منہ کھولے پہنچ گئے ۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ان لوگوں کے لئے کہ لاشیں بے گور و کفن پڑی ہیں اور یہ سیاسی مگر مچھ اپنے ٹسوے بہانے پہنچ گئے ۔ پاکستان کی عوام کو سوچ لینا چاہئے کہ آج ہزارہ برادری پر مصیبت کے گھڑی ہے کل ان پر بھی ایسی مصیبت آسکتی ہے اور یہی مگر مچھ آپ کی صفوں میں گھس کر آنسو بہائیں گے ۔