موجودہ صورتحال اورعا م لوگ

پہلے خوشحال خان خٹک کی چند سطریں ملاحظہ ہوںاہل شر کےلئے پنجہ شاہین پیدا کر اور اہل خیر کےلئے کبوتر سے بھی زیادہ حلیم و خاکسار بن جا“شیر کا مقام یا تو پہاڑی دروں کی انتہائی بلندیوں پر ہوتا ہے یا پھر اسکی قسمت میں موت یا زنجیر ہوتی ہے“نئے سال2020ءکی آمد کےساتھ ہی کچھ ایسے واقعات رونما ہونے لگے ہیں کہ آنےوالے دنوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے لایا جا سکتا ہے ۔ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کرکے قتل کر دیاگیا ہے امریکہ کا صدر ٹرمپ اپنے خلاف مواخذے کے فیصلے سے قبل اور خاص طور پر آنے والے انتخابات میں کامیابی کےلئے امریکی عوام کی توجہ اپنی نالائقوں سے ہٹانا چاہتا ہے۔ سو اس نے ایرانی جنرل کواس وقت نشانہ بنایا جب وہ عراق میں سعودی حکومت کےلئے پیغام لےکر جا رہے تھے ۔اس واقعہ نے اس سارے خطے کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ‘پاکستان کا موقف فی الوقت درست ہے کہ ہمیں خطے میں امن خراب کرنے کی کسی بھی کاروائی کا حصہ نہیں بننا چاہئے ۔

پاکستان کا یہ فیصلہ بھی قابل تحسین ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔جس روز ایرانی جنرل کوقتل کیاگیا ہم لاہور سے دور ایک ایسی محفل درویش میں تھے جہاں آس پاس کے دیہات سے عام لوگ بھی تشریف فرماتھے ‘لوگ جب نئے سال کی خوشیاں منا رہے تھے ہم اپنے درویش صفت بزرگ احباب کی محفل کو نکل پڑے‘ ڈیرہ نواب کی بستی میں سائیں مسکین کی کٹیا میں الاﺅ جل رہا تھا اسے درویش لوگ ”مچ“ کا نام دیتے ہیں‘ آئیے یہاںبیٹھے ہوئے لوگوں کی باتیں سنتے ہیں۔ کالم کے آغاز میں خوشحال خان خٹک کی لکھی سطریں محفل میں مرد درویش بیان کر رہے تھے ‘فرمایا انسان اپنی اصل کو فراموش کرکے اس مختصر اور فانی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے اس عارضی زندگی کےلئے لالچ حرص اور آرزوﺅں میں غرق رہنے سے ہماری روحانی صلاحیتیں مردہ ہو جاتی ہیں‘ یہ بات جاری تھی کہ طارق لودھی نے ایران امریکہ کشیدگی کے حوالے سے بات شروع کر دی‘ ریاض بھٹی بولے ‘ امریکہ نے ایرانی جنر ل کو نشانہ بنا کراس خطے کو آگ میں جھونک دیا ہے ‘۔

یہ واقعہ کسی بھی بڑی جنگ کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے‘ اب مسلم امہ کو متحد ہونا پڑے گا ورنہ ہم تباہی سے دامن نہیں بچا سکتے۔ماسٹر دین محمد نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ آنےوالے خطرات کےلئے ہمیں بطور پاکستانی قوم کچھ نہ کچھ حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے ‘ہمارے ہاں دشمن فرقہ واریت کو ہوا دے سکتا ہے ہمیں پہلے سے بھی زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہوگی آج اگر خدانخواستہ ہماری زمین بھی جنگ کی آگ کے شعلوں میں گھر جائے تو ہم کیا کریں گے؟ہم تو آپس میں لڑنے سے باز نہیں آتے ‘ ٹی وی ٹاک شوز میں سیاستدانوں اور ان کے پارٹی عہدیداروں کو مرغوں کی طرح لڑایا جاتا ہے انسانی خوراک میں ملاوٹ کرکے ہم خود کو ہلاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ اس چند روزہ زندگی میں عیش وآرام کےلئے حرام مال بنانے سے باز نہیں آتے ‘ بچوں کے کھانے پینے کی اشیاءمیں بھی ملاوٹ کرکے انکی زندگی سے کھیلا جا رہا ہے ہم اپنی اولاد کےلئے ناجائز ذرائع سے دولت جائیداد بناکر خود کو بے سکون کرتے ہیں اورآخر کو کسی موذی مرض میں مبتلا ہوکر کومے میں چلے جاتے ہیں‘مجید خان نے کہا کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو ہمیں اس میں ہر حال میں گھسیٹا جائےگا بھارت اپنے اندرونی خلفشار سے توجہ ہٹانے کےلئے پاکستان پر حملہ آور ہو سکتا ہے‘۔

امریکہ کو ایران سے نمٹنے کیلئے قریبی ہوائی اڈوں کی ضرورت پڑےگی تو بھارت اور افغانستان کو استعمال کرنے سے کیسے باز رہ سکتا ہے ؟ایسے میں پاکستانی عوام کو سوچنا ہوگا اور آپس میں اتحاد پیدا کرنےکی ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی لوگوں کی باتےں ان سنی کرکے ہمیں بیرونی دشمنوں کےلئے متحد ہونا پڑےگا‘جمیل بادشاہ نے کہا کہ ہم تو ٹریفک کے قوانین کی پابندی نہیں کرتے‘اگلے روز سوہاوہ کے قریب ہماری گاڑی کو باقاعدہ پیچھا کرکے اور پھر ٹول پلازے پر سپیکر سے اعلان کرکے رکوایا گیا‘ ہمارے کاغذات مکمل تھے ٹریفک آفیسر نے کہا گاڑی چیک کرنی ہے‘ ہم اترگئے ‘ آفیسرنے گاڑی چلائی اور بیس منٹ بعد واپس آیا اور آتے ہی بولا گاڑی بیچوگے؟ہم اس سوال پر اب تک حیران ہیں کہ ٹریفک افسران اس طرح بھی گاڑی خریدنے کا کام ڈیوٹی کے دوران کر رہے ہیں؟یہ تو ٹریفک پولیس کا حال ہے عام آدمی سے کیا گلہ کریں؟ سائیں مسکین بولے! بات وہی ہے جو سرکار نے فرمائی ہے انسان حرص وہوس کو چھوڑکر زندگی گزارے تو معاشرہ پرامن اور خوشحال بن سکتا ہے جہاں تک سیاسی مسائل کا تعلق ہے تو بات یہ ہے کہ
گل من کے ضمےر دی ٹرئیے
کلی دا بھانویں ککھ نہ رہوے

 

بشکریہ روزنامہ آج