458

لاک ڈاؤن اور مساجد کا مسلہ


میں کوئی لکھاری تو نہیں ہوں لیکن توقع کرتا ہوں میری تحریر پسند آۓ گی.کرونا وائرس جو کہ ایک وبائی  مرض ہے اس نے نہ صرف ایک دو ملکوں کو بلکہ دنیا کے 188 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے.اس کا اصل مرکز تو چائنہ ہے جہاں سے اس وائرس نے تیزی پکڑی اور پوری کراہ عرض پر اپنا جھال بچھا دیا.
کرونا وائرس کی آفت سے پاکستان اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لیے کوشش جاری رکھے ہوۓ ہے.یہ وائرس کوئی بیماری تو نہیں ہے کچھ گندے جراثیم ہوتے ہیں اور بندے کی جان تک لے لیتے ہیں.کرونا
 وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلتا ہے اور جسم میں نزلے زکام گلے خرابی کی علامات ظاہر کرتا ہے.
اس لیے ضروی آمر تھا کہ لوگوں کی تمام تر سرگرمیوں کو معطل کیا جاۓ اور ملنے ملانے سے اجتناب کیا جاۓ.ایسی صورت حال کے پیش نظر کرفیو یا لاک ڈؤان دو ہی آپشن موجود تھے.حکومت کے مطابق ہم  مکمل کرفیو نافذ نہیں کرسکتے کیونکہ بہت ساری آبادی ڈہارای دار طبقہ ہے اس لیے زندگی گزانا مشکل ہو جاۓ گا.لیکن مجھے یاد آیا کہ لاک ڈؤان بھی وفاقی حکومت کی ترجیح نہیں تھی وہ بھی تو صوبائی حکومتوں نے اپنے فیصلے کر کے لگایا تھا.سب سے پہلے سندھ حکومت نے لاک ڈؤان کا اعلان کیا پھر اس کے دیکھتے دیکھتے حکومت پنجاب کو خیال آیا اور  24 مارچ سے 7 آپریل تک لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا.لاک ڈاؤن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مقررہ وقت کے لیے لوگوں کو باہر آنے جانے کی اجازت ہوتی ہے تا کہ ضرویات زندگی کی چیزیں خرید سکیں.کرونا وائرس کے خلاف بھی مرکز اور صوبے ایک بات پہ متفق نہ ہو سکے.
پھر وزیراعظم سے جب اس کا سوال ہوا تو انہوں نے کہا 18 ترمیم کے تحت صوبے آزاد ہیں وہ خود فیصلے کر سکتے ہیں.لاک ڈاؤن کے باوجود کرونا کے مشتبہ مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ ہماری پاکستانی قوم گھروں میں بیٹھنے والی نہیں ہے.ہم لاک ڈاؤن کے دوران بھی یہ دیکھنے باہر جاتے ہیں باہر لاک ڈاؤن ہے یا نہیں.چناچہ اب حالات کے پیش نظر ایک اور بڑا فیصلہ کیا جانے والا تھا کہ مساجد سمیت تمام اجتماعات پر پابندی عائد کر دی جاۓ.سب سے پہلے یہ فیصلے دوسرے اسلامی ممالک نے کیا.سعودی عریبہ میں تو خانہ کبعہ کا طواف بھی معطل کردیا گیا اور عمرہ زائرین کو بھی روک دیا گیا.کویت نے بھی بگڑتی صورت حال کو دیکھتے ہوۓ ملک میں مساجد کو بند کرنے کا فیصلہ کیا.
اب آتے ہیں اپنے پاکستان کی طرف یہاں لاک ڈاؤن تو پہلے ہی تھا.مساجد کو بند کرنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوا تھا تو صدر پاکستان نے تمام علماۓ کرام سے مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ مساجد کو بند کر کے انفردی عبادت کو فروغ دیا جاۓ.
اس حوالے سے تمام مسالق کا ایک بات پر متفق ہونا مشکل تھا.وزیر مذہبی امور نے ﺍﯾﻮﻥ ﺻﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﻼﺱ ﮐﮯ بعد یہ فصیلہ کیا ﮐﮧ ﻣﻠﮏ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻭﺭﺩﯾﮕﺮ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻮ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔اگر اسلامی لحاظ سے دیکھا جاۓ تو اس بیماری سے بچاؤ کی غرض سے گھر میں نماز ادا کر سکتے ہیں.
صیح بخاری (668) میں ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عباسؓ نے جمعہ کے دن خطبہ سنایا اور بارش و کیچڑ کی وجہ سے موذن کو یہ حکم دیا کہ اذان میں آج " حی علی الصلاتہ " کی جگہ یوں پکار دو " الصلاتہ فی الرحال " کہ نماز اپنی قیام گاہ پر ہی ادا کر لو.
لوگوں نے حضرت عباسؓ کے اس عمل پر تعجب کیا تو انہوں نے کہا " ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے.ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسولؐ نے بھی کیا تھا.بے شک جمعہ واجب ہے مگر میں نے  یہ پسند نہیں کیا کہ " حی علی الصلاتہ " کہہ کر باہر نکالوں ( اور تکلیف میں مبتلا کروں ).
اس حدیث پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بارش اور کیچڑ کی وجہ سے بستی اور محلے کے سارے لوگ مسجد کی بجاۓ اپنے اپنے گھروں میں نماذ ادا کرسکتے ہیں.
.یہ تو اللہ کی طرف سے آسانی ہے اور اسلام آسانی کا نام ہے.
 یہاں تو پھر جان کا خطرہ ہے اور کرونا کی وجہ سے مساجد کا بند کرنا یا نماز کے اجتماعات پے پابندی لگانا ایمان کی کمزوری نہیں ہے.
اللہ پاک ہم سب کو اچھے اعمال کرنے کی ترغیب دیں اور کرونا وائرس سے محفوظ رکھیں..آمین

بشکریہ اردو کالمز