اردو زبان کے نفاذ میں ناکامی کیوں؟

چند ہفتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی ایک تقریر سُنی جو اُردو زبان کو عدالتوں، سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر، بینکوں اور ہسپتالوں میں جاری کرنے کی تلقین کہی جا سکتی ہے۔ جس طرح وزیراعظم نے بغیر سوچے سمجھے ریاستِ مدینہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا تھا، بغیر یہ جانے کہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ غیر منظم عوام پر مشتمل ہے، جہاں کا قانون رومن لاء سے اَخذ کیا گیا ہے، جہاں قوانین اسمبلیوں میں کثرت ِ رائے کی بنا پر بنائے جاتے ہیں ناکہ عدل اور انصاف کی فراہمی کے لئے…… جس معاشرے میں بجلی چوری، گیس چوری، ٹیکس چوری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، سُود خوری، جھوٹی گواہیاں، وکالت بازی، رشوت، دھوکے بازی ریاستی سطح پر بددیانتی ہو اور ملک کے چھوٹے بڑے ججوں کی Integrity پر اُنگلی نہ اُٹھائی جا سکتی ہو،وہاں تو ریاستِ مدینہ کا عشرِعشیر بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے معاشرے سے جب تک غیر اخلاقی، غیر انسانی، غیر اسلامی روّیے اور غیر منصفانہ حکومتی نظام ختم نہیں ہو جاتا، عمران خان کو”ریاست مدینہ“ کا صرف نام لینے سے پہلے 100 بار سوچنا چاہئے۔

اسی طرح وزیرِاعظم نے اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری خط و کتابت بنانے کی شدید خواہش ظاہر کر دی بغیر سوچے سمجھے کہ پچھلے ڈیڑھ سو سال میں ٹیکنالوجی کہاں سے کہاں چلی گئی ہے۔ ٹیکنالوجی میں نِت نئی ایجادات نے نئی اِصطلاحات کو جنم دیا۔ جن ملکوں نے بھی ایجادات کیں، اُن ملکوں کی زبانوں میں ہی اِصطلاحات اور آلہ جات کے نام رکھے گئے۔ جب کسی غیر ملک نے دوسرے ملک کی کسی ڈیوائس یاایجاد کو اپنایا تو اُس غیر ملک نے ایجادات کے نام بھی اوریجنل ہی رکھے۔ اُن کا اپنی زبان میں زبردستی ترجمہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ سیل فون کی ایجاد دراصل امریکی کمپنی موٹرولا نے کی تھی، لیکن اُس امریکی کمپنی کی زبان جو انگریزی تھی، اُسی کی اِصطلاحات نوکیا، سام سنگ، سونی اور ایرکسن نے اپنائیں، حالانکہ اِن ممالک کی زبان انگریزی نہیں تھی۔ کچھ عرصے کے بعد یہی کمپنیاں اپنی اپنی پراڈکٹس میں زیادہ بہتری لاکر، امریکی کمپنیوں کے مقابلے پر آگئیں …… پاکستان کا آئین اُردو زبان کو قومی اور سرکاری زبان بنانے کی ہدایت کرتا ہے۔ پاکستان کی تشکیل کے دس، پندرہ سال تک اُردو پڑھو، اُردو لکھو اور اُردو بولو کا بہت غلغلہ رہا۔ اِنگلش میڈیم سکول کی آمد نے لفظ اُردو میڈیم کو تضحیک آمیز بنا دیا۔ اُردو زبان کو بالکل ہی گھٹیا درجے پر پہنچانے میں کئی سرکاری اور غیر سرکاری عوامِل نے حصہ لیا۔

جس طرح ملک کے ہر شعبے میں گراوٹ آتی گئی، اسی طرح ہمارے سرکاری سکول بھی اصطبل خانے بن گئے۔ پڑھے لکھے اور خوشحال ماں باپ نے اپنے بچوں کی معیاری تعلیم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے انگلش میڈیم سکولوں کی سر پرستی کی۔ آج سے 50،60سال پہلے انگریزی میں تعلیم صرف Convent سکولوں میں دی جاتی تھی۔اُن دِنوں کھاتے پیتے خاندانوں کے بچے بھی انگریز کے بنائے ہوئے سرکاری سکولوں میں تعلیم پاتے تھے۔اِن سکولوں میں انگریزی بطور زبان پانچویں کلاس سے پڑھائی جاتی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان کو آزادی دلانے والے لیڈر ایسے ہی سرکاری سکولوں سے پڑھ کر باہر نکلے تھے، البتہ پاکستان کے ابتدا کے چند لیڈر ایچی سن کالج اور مشن سکولوں کے پڑھے ہوئے یا ولایت کے پڑھے ہوئے تھے۔وقت کے ساتھ جہاں سرکاری سکولوں کا معیارِ تعلیم تنزلی کا شکار ہوا۔ وہاں امتحانی نقل بھی عام ہو گئی۔ گیس پیپرزنے طالب ِعلموں کو گہرے مطالعہ سے دُور کر دیا۔ گیس پیپر بنانے والے اپنے پیپروں کو کامیاب کرنے اور اپنی مشہوری کے لئے تعلیمی بورڈز کو رشوت دے کر امتحانی پرچے اپنے ہی گیس پیپر میں سے سیٹ کرواتے ہیں۔سمجھ دار ماں باپ نے اپنے بچوں کو دھوکے بازی سے بچانے کے لئے " O " اور " A " لیول کے اِمتحانات کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا، جس کے لئے کثرت سے اِنگلش میڈیم سکول بھی مارکیٹ میں آگئے، بلکہ مشکل سے مشکل انگریزی اور فرنچ ناموں والے سکول آگئے تاکہ ماں باپ اُن ناموں سے مرعو ب ہو کر فیسیں بھی زیادہ دیں اور اِن سکولوں کے نخرے، نئی نئی ڈیمانڈز کے ذریعے پورے کریں۔ اِن سکولوں نے اپنے طالب علموں کو انگریزی میں بولنا، انگریزی میں سوچنا اور انگریزی میں ہی Behave کرنا سکھایا۔ اِن کا نصاب بھی سرکاری سکولوں سے جُدا کر دیا گیا۔ تاریخِ پاکستان، اُردو اور اِسلامیات بس واجبی سی پڑھائی جانے لگی،اس لئے تعلیمی بورڈ اور گیس پیپرز بنانے والوں کی مِلی بھگت سے غیر مستحق طالبِ علم فرسٹ/ سیکنڈ/ تھرڈ پوزیشن لانے لگے۔

چونکہ ہمارے سرکاری سکولوں کا معیار گِر چکا تھا، اُستاد بھی نکمے اور سفارشی آنے لگے تھے۔”O“ او ر ”A“ لیول طریقہِ امتحان زیادہ پاپولر ہو گیا۔ یہاں سے ہی ممی ڈیڈی جنریشن وارد ہوئی۔ تمام قہوہ خانوں، دکانوں، شاپنگ مالوں اور ریستورانوں کے نام انگریزی میں لکھے جانے لگے۔ اُردو زبان پیچھے ہٹتے ہٹتے محلوں، مسجدوں اور سیاسی جلسے جلوسوں میں یا اُردو اخباروں تک رہ گئی۔اُردو اخبار پڑھنے سے اُردو کی Vocabulary تو بڑھ سکتی ہے، لیکن اچھی اُردو لکھنے کا اسلوب نہیں آسکتا۔ اُردو زبان کے بڑے بڑے لکھاری، شاعر اور نثرنگار آہستہ آہستہ مرحوم ہوتے جا رہے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کو محدود سی شہرت ملتی ہے۔ ہمارے ملک کی 60 فیصد آبادی جوان ہے، جس میں سے آدھی سے زیادہ اَن پڑھ ہے۔ 2-3 فیصد صرف انگریزی جانتی ہے، باقی اُردو میڈیم Youth آج کل کے نثر نگاروں کی اُردو کو سمجھ ہی نہیں پاتی۔ میَں نے کل کے ایک اُردو اخبار میں ایک عالِمانہ مضمون سے ایک جملہ لیا اور میٹرک کے چند طالب ِعلموں کو پڑھنے اور اُس جملے کا مطلب بتانے کے لئے بھی کہا۔تمام طالبِ علم سپاٹ نکلے۔ وہ جملہ ایک عالم نے ایک دوسرے مرحوم عالم کی توصیف میں لکھا تھا۔ وہ کچھ یوں تھا: ”اللہ تعالیٰ نے اُن کو بیک وقت وسیع، عمیقِ علم، شگفتہ اور سیال قلم، دلنشین خطابت اور اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی مسائل میں معتدل اور ُمدبرَ انہ فکر سے نوازا تھا“۔

سلیس اُردو لکھنے کا رواج ہی ختم ہو رہا ہے۔ اخباروں کے سیاسی یا فکاہیہ کالم سے ہمارا آج کا نوجوان بھاگتا ہے۔ سرکاری طور پر اُردو زبان کی بے توقیری سی ایس ایس کے اِمتحانوں سے شروع ہوئی۔ 1960 ء میں جب میَں نے اِمتحان دیا تھا، اُس وقت اُردو زبان کا 100 نمبر کا پرچہ ہوتا تھا، بقیہ تمام مضامین بزبان انگریزی ہوتے تھے۔ خواہ جنرل نالج کا پرچہ ہو،روز مرّہ سائنس کا یابین الاقوامی حالات کا پرچہ ہو، انگریزی میں ہوتا تھا۔ جب ایک نوجوان کی اعلیٰ ملازمت ہی اچھی انگریزی دانی پر مبنی ہوگی تو اُردو کو کون پوچھے گا۔ آج سے 90 سال پہلے جب لیگ آف نیشن بنی تھی تو اس کی سرکاری زبانوں میں عربی کا نام و نشان تک نہیں تھا، کیونکہ اُس وقت عربوں کی سیاسی اور مالی حیثیت کسی قابل نہیں تھی۔ کئی عرب ملکوں میں تو ابھی تیل بھی دریافت نہیں ہوا تھا، لیکن جب عربوں پر ڈالروں کی برسات ہوئی تو 1973ء میں عربی زبان کو یو این او کی چھٹی اور ابھی تک آخری سرکاری زبان بنایا دیا گیا۔ اوپیک کے بعد تو دوائیوں کی کمپنیاں بھی پرچہ ترکیب ِاستعمال عربی میں لکھنا شروع ہو گئیں۔ الیکٹرانک کے سازوسامان کے ”لیف لیٹ“بھی عربی میں آنے لگے۔ تیل نکالنے والے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے پاس نہ سائنسی علوم تھے اور نہ ٹیکنالوجی، صرف پیٹرو ڈالر کی طاقت تھی، جس کے آگے تمام دنیا جُھک گئی۔ایک زمانہ تھا جب عربی علم اور سائنس کی زبان تھی۔ وہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔حساب، کیمیا، طِب، طبیعات (فزکس) انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، تاریخ، فلسفہ، جغرافیہ کے علوم پر مسلمان حاوی تھے۔ اُن کی وضع کردہ تکنیکی اصطلاحات کو یورپ نے اپنایا۔ عربی زبان نہ صرف علوم اور ایجادات کی زبان بنی،بلکہ یہ زبان دوسرے ممالک کے علوم کی Carrier language بھی کہلائی۔ وقت کے ساتھ جب مسلمانوں کو زوال آیا تو اُن کی علمی زبانیں بھی بانجھ ہو گئیں۔ اُردو زبان تو کبھی بھی علوم کی زبان نہیں رہی ۔یہ رابطے کی زبان ضرور رہی ہے اور آج بھی ہے۔ اُردو غالبا ً دنیا کی دوسری بڑی رابطے کی زبان ہے انگریزی کے بعد۔

ہم اُردو والوں نے اُردو کو سائنس اور Career کی زبان بنانے کے لئے کون سا کمال کیا ہے۔ ایک اُردو سائنس بورڈ بنا تھا۔ جب تک اشفاق احمد خان زندہ رہے، اُنہوں نے محنت سے سائنسی اصطلاحات کا اُردو میں ترجمہ بھی کیا، بلکہ اُنہوں نے ہی بورڈ کے ذریعے مشورہ دیا کہ سائنسی لفظ اگر اُردو میں ترجمہ نہ ہو سکے تو اُس لفظ کو اُس کی اصلی شکل میں اُردو رسم التحریر میں ہی لکھ لیا جائے۔ اشفاق احمد خان کے بعد اُردو بورڈ پتہ نہیں موجودہے یا نہیں۔ اسی طرح ایک مقتدرہ اُردو زبان بنی تھی۔ اِن دونوں اِداروں کی کاوشوں کا ہمارے تعلیمی اِداروں نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ ہمارے اُردو میڈیم سکول متوسط اور غریب طبقے کے بچوں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گئے۔ Career بنانے والے طالبِ علموں کے لئے انگریزی لازم اس لئے ہو گئی، کیونکہ ڈاکٹری، انجینئرنگ، اکاؤنٹنگ، بینکنگ اور آئی، ٹی سے متعلق اِصطاحات کے اُردو ترجمے نہیں ہوئے۔ نئی نئی معلومات اور دریافتوں کا سیلاب باہر سے اَتنی تیز رفتاری سے آرہا ہے کہ ہماری اُردو میں ترجمہ کرنے کی اہلیت اُس رفتار کو پکڑ ہی نہیں سکتی۔ اُردو زبان کی ناقدری کی وجہ ہمارا احساسِ کمتری بھی ہے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد وغیرہ کی مالز میں کسی ڈیزائنر بوتیک پر چلے جائیں اور اُردو میں بات کریں تو سیلز مین انگریزی میں جواب دے گا، بشرطیکہ آپ اپنے حُلیے سے انگریزی دان یا ممی،ڈیڈی ٹائپ لگتے ہوں۔میری وزیرِ اعظم سے درخواست ہے کہ ایسے جذباتی نعرے لگانے سے پہلے دیکھ لیاکریں کہ آیا پاکستان کے موجودہ معاشرے اور قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے، اُردو زبان کا نفاذ ممکن ہو سکے گا؟ آپ کے خلوص اور دیانت پر کوئی شک نہیں،لیکن اعلان کرنے سے پہلے آپ کو اپنے حکم، خواہش یا ہدایت کے ہر پہلو پر غور کر لینا چاہیے، جو آپ نہیں کرتے۔

بشکریہ روزنامہ آج