1857 کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں مسلمانوں کا جینا مشکل ہوگیا تھا. انگریزوں نے اس جنگ کو بغاوت کا نام دیا اور اس کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈالا گیا.مسلمانوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو جدید تعلیم فراہم کرنے میں اس بحران کا حل نکالنے کی کوشش کی اور اس جدوجہد میں ان کو مسلمان راہنماؤں سے بھی مخالفت ملی. انہوں نے اس کام کو سرانجام دینے کیلیے بہت سارے اسکولز اور کالجز بنائیں.
1886 میں انہوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی جو بعد میں مسلم لیگ بننے کی وجہ بنی.
مسلم لیگ بننے کے بعد مسلمانوں نے براہ راست اپنے حقوق کا تحفظ کرنا شروع کردیا. بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انگریزوں کو وفاداری کا سرٹیفکیٹ بھی دکھانا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ وفاداری کسی کام نہ آئی اور مسلمانوں نے آزاد وطن کا مطالبہ شروع کیا. سن انیس سو چالیس میں قرارداد پاکستان نے ایک آزاد مملکت کی بنیاد رکھنے کیلئے راہ ہموار کی. آخر کار اس تحریک آزادی نے اپنا رنگ دکھایا اور 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا.
آزاد مملکت کے حصول کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی ملے. ذہنی آزادی کے ساتھ ساتھ سرحدی آزادی. انگریزوں کے نظام سے آزادی اور ایک اسلامی ریاست کے قیام کا حصول تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہوا کیونکہ ہم صرف اپنا ایک ملک بنانا چاہتے تھے. ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اس ملک کو چلانے کے لئے کوئی اپنا نظام بھی چاہیے.
حکومت کے منتقلی کے فورا بعد ہم نے انگریزوں کے اس نظام کو نافذ کیا جس سے ہم نے برسوں پہلے رد کیا تھا. جو ملک اسلام کے نام پر بنے اور اس میں اسلامی نظام نہ ہو تو ایسے ملک کو اسلامی ملک کہنا مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے. ہم نے جتنے آئین مرتب کئے ان کا ڈھانچہ وہی فرنگی تھا جسے ہمیں آزادی چاہیے تھی.
اردو جو کہ اس ملک کی بنیاد کی اہم وجہ ہے اس کو سراسر نظر انداز کیا گیا. اردو کو بس یہی صلہ ملا کہ اس کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا لیکن اس کی ترویج کیلیے عملی اقدامات نہیں کئے گئے. اس کی زندہ مثال قائداعظم خود ہے. "شہاب نامہ " پڑھنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ قائد اعظم کی گفتگو زیادہ تر انگریزی میں ہوتی تھی. اگر یہ آزادی تھی تو اردو کو ہمیشہ کیوں نطر انداز کیا گیا.... اگر یہی آزادی ہے تو پھر یہ تحریک کا ناٹک کیوں کیا?
جس مقصد کیلئے ہم نے سالوں سے جدوجہد کی آج جب وہ پورا ہوا تو ہم نے اس کو چھوڑ دیا. یہ تحریک آزادی کی تحریک تھی جس کا مقصد انگریزوں اور ہندوؤں سے ہر قسم کی آزادی اور خودمختاری تھی لیکن افسوس! ہم آزادی کے معنی سمجھنے سے قاصر ہیں. نظام انگریزوں کا, رہن سہن ان کا اور چال چلن ان کی, تو پھر یہ آزادی کیسی.....?
میرے خیال سے 14 اگست 1947 کے دن کو آزادی کے نام سے منسوب کرنا بے وقوفی ہے. اس کو صرف اور صرف "بٹوارہ " کا نام دیا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے حصے میں 79696 مربع کلومیٹر زمین کے ٹکڑے کے ساتھ ساتھ کچھ مادی چیزیں آگئی لیکن نظام وہی آیا جسے ہمیں گن آتی تھی اور ہم نے اسے ٹھکرایا تھا. تو اس کو آزادی نہیں بٹوارہ کہنا مناسب ہوگا.
اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ اس کو صحیح معنوں میں آزادی کا نام دے سکتے ہیں اگر ہم اپنے ملک میں اسلامی نظام اور رہن سہن کو نافذ کریں. اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو. )آمین (
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ