271

پاک افغان بارڈر چمن پر مقامی شہریوں کو درپیش مسائل اور ان کا آسان حل۔ 


پاک افغان بارڈر چمن کی بندش  اب کشمیر جیسے مسئلہ کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ ھر وقت معمولی چیزوں پر اسے بندش کے شکار ہوتے ہیں جس سے تجارتی سلسلہ بھی متاثر ہوکرٹھپ   ہوجاتے ہیں۔ اسے کھولنے میں وفود جاکر ملاقاتیں کرکے کھولے جاتے ہیں۔ چمن بارڈر کی بندش سے ہر وقت مقامی شہری اور تاجر برادری سخت مشکلات کے سامنا  ہوتے ہیں۔  اس طرح کے حالات سے صرف اور صرف نقصان مقامی شہریوں  کو پہنچتا ہے، کیونکہ سرحد کے دونوں طرف یہی لوگ آباد ہیں۔ اس وقت سرحد پر دونوں جانب عام شہری جن میں مریض بھی شامل ہیں۔ پریشان حال ہیں۔ جبکہ سرحد پر ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے بھی بڑی تعداد میں بے روزگار ہو چکے ہیں۔

ان ڈیلی ویجیز پر کام کرنے والوں کا چولہ روزانہ کی بنیاد پر باب دوستی پر جلتا ہے۔ لہذا دونوں جانب کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کریں کیونکہ روز روز کے جھڑپوں سے یہ معاملہ روز بروز خراب تر ہوتا جارہاہے۔ پاک افغان بارڈر چمن دومسائل کے شکار ہیں۔ سب سے پہلے مسئلہ روزگار کی صورت میں مقامی شہری یعنی لغڑی شہریوں کے ہیں جو مال بارڈر سے لاکر چمن میں بیچتے ہیں یا سامان لاکر کرایہ وصول کرتے ہیں۔ جو فی لغڑی شہری پانچ سو روپے سے لیکر پندرہ سو روپے تک روزانہ کماتے ہیں۔ جس سے وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔ واضح رہے چمن شہر میں نہ کارخانے ہیں اور نہ ہی اچھے ملازمت۔  حکومت پاکستان چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ اب روکنا چاہیے۔ لیکن مقامی شہریوں کے یہ روزگار کی خاتمہ کرنے کی بدولت حکومت متبادل روزگار بھی فراہم نہیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اہلیان چمن کیلئے اسی روزگار کے خاتمے کیلئے تیار نہیں۔ جس کی وجہ سے پاک افغان بارڈر چمن پر مقامی شہریوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان کئی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ جسمیں کئی افراد جاں بحق اور کئی زخمی بھی ہوئے ہیں۔  روزگار کے اس مسئلے کا حل درمیانی راہ اختیار کرنے کی صورت میں حل کیا جاسکتا ہے۔ وہ درمیانی راہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان بارڈر کے راستے جتنے ایٹمز مال آتے ہیں۔ اسمیں صرف دو یا تین ایٹمز مال ٹیکس فری کرکے مقامی لغڑی شہریوں کیلئے لانے کی اجازت دی جائیں۔ دیگر ایٹمز مال کو تجارتی و ملکی اصولوں کی مطابق  ملکی سطح پر کاروبار جاری رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ تمام سمگلنگ کے ذریعے پر سخت پابندیاں عائد کئے جائیں۔ 
دوسری مسئلہ پاسپورٹ کے نظام قائم کرنے کا ہے۔ پاک افغان بارڈر چمن پر اب حکومت پاکستان پاسپورٹ نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن پاک افغان بارڈر چمن کے دونوں اطراف پر ایک ہی قوم آباد ہیں۔ جس کے درمیان خونی رشتوں کے علاوہ دیگر قرابتیں بھی ہیں۔ چمن کے کئی اقوام کے زمینیں اتنے مشترکہ ہیں جن کے آدھا زمینیں پاکستان میں اور آدھا زمینیں افغانستان میں وجود رکھتے ہیں۔ جو بارڈر لائن نے ان زمینوں کو دو حصوں میں تقسیم کئے ہیں۔ پاک افغان بارڈر چمن پر مقامی شہریوں کیلئے پاسپورٹ نظام لانا ناقابل قبول اور ناقابل تسلیم ہیں۔ اس مسئلے کا آسان حل یہی ہے کہ پاک افغان بارڈر چمن پر پاسپورٹ نظام بالکل نافذ کردیں لیکن اس نظام سے بارڈر سے نزدیک شہروں چمن اور سپین بولدک کے شہریوں کو استثنیٰ دیا جائے۔ ان دو شہر چمن اور سپین بولدک کے شہریوں کو صرف شناختی کارڈ اور افغانی تذکرہ یا راہداری سسٹم جاری کرکے آمدورفت جاری رکھا جائے۔ 
ورنہ مقامی شہریوں اور حکومتوں کے درمیان میں یہ نفرتوں کے سلسلے جاری رہیں گے۔ اور ہر وقت خوف و ہراس اور بے چینی رہے گی۔ 
 مقامی عمائدین، مشران، سیاسی قائدین، حکومت پاکستان اور امارت اسلامیہ افغانستان کے اعلیٰ حکام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پاک افغان بارڈر چمن پر مقامی شہریوں کو ان درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اہلیان چمن و سپین بولدک کے اس دیرینہ مسائل حل کرکے بے چینی کی خاتمہ کرنی چاہیے۔ 

بشکریہ اردو کالمز