اتنا خرچہ کہا ں سے آئے گا؟

ہمارے ہاں بائیک چلانے والے ہزاروں لاکھوں ہیں ان کے مقابلے میں چار پایوں کی گاڑیاں چلانے والے بہت کم ہیں مگر اب تو موٹر سائیکل چلانا شہریوں کے بس سے باہر ہو چکا ہے‘ ہر ہفتے پٹرول کی گرانی اور مہنگائی کی اک نئی لہر اک کہانی جانے ہمیں کہاں پہنچائے گی‘بس پٹرول ڈالو جاؤ او رختم کر کے پھر آؤ اور گھسیٹ گھسیٹ کر موٹر بائیک کو پٹرول پمپ میں زبردستی داخل کرو‘پٹرول ڈالو سو کا اور پھر دوبارہ آنے کو ذہن تیار رکھو‘پچاس کی باتیں گئیں‘ اب تو سو سے کم کا پٹرول تو ڈالتے بھی نہیں‘ سو کا وہ بھی ترس کھا کر ڈالتے ہیں‘ ان کو پتا ہے کہ بائیک والوں کا طبقہ ان دنوں زیادہ قابلِ رحم ہے کیونکہ زیادہ تر موٹر سائیکلیں قسطوں کی ہیں  بائیک کی ماہانہ انسٹالمنٹ دو نہ دو مگر پٹرول کے پیسے تیار رکھو کہ کسی بھی وقت راستے میں بائیک ساکت و جامد ہو سکتی ہے پھر اگر بائیک راستے میں کھڑی ہو جائے تو اس پر شرمانے والی بات بھی غلط ہے‘سب کو پتا ہے‘سب جانتے ہیں کہ موٹر سائیکل والوں کے پاس پٹرول ہتھے پر ختم ہو جاتا ہے پھر یہ کچھ دیر پیدل چلتے ہیں پھر جب پٹرول پمپ میں بائیک سواروں کا رش ہو جاتا ہے تو بائیک والوں کا غصہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے وہ آپس میں چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑتے ہیں پہلے میری باری تھی اس کو پٹرول کیوں ڈال کر دے دیا‘ بس مختصر یہ ہے کہ کھانا کھاؤنہ کھاؤ پٹرول ضرور ڈالنا ہے بھلے گھر میں روٹی نہ ہو مگر بائیک ہو‘گاڑی ہو کچھ نہ کچھ  ہو‘ جو بھی کچھ ہو‘اس میں پٹرول ضرور ڈالنا ہے‘ہمارا تو اب کچھ کام نہیں رہا بس پٹرول ڈالو اور راستے میں ختم کرو اور پھر لوٹ کر آؤ‘جلد پٹرول ختم ہو گیا تو اپنی جیب کی طرف کسی کا دھیان نہیں جائے گا بلکہ وہ سوچے گا شاید دودھ کی طرح پٹرول میں بھی پانی ڈالا گیا ہے‘‘اب تو حالت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ گھرمیں سودا سلف لے کر آؤ تو کوئی اعتراض کرے  خواہ وہ اعتراض کوالٹی پر ہو یا مال کی مقدار پر ہو مگر ہم جواب میں ہر شئے کے نرخ بتلانا شروع کر دیتے ہیں‘باہر ہر چیز مہنگی ہوئی ہے اگر سبزی بھی لاؤ صبح دم کہیں قریب سے پراٹھے پکڑ لاؤ اس کے بدلے نرخوں کے بارے میں نہ چاہتے بھی گھروالوں کو اس کے ریٹ بتلانا پڑتے ہیں گھر والے بھی آئے دن چیزوں کے نئے نرخوں کے بارے میں سن سن کر تھک جاتے ہیں مگر یہ جو نرخ زیادہ کر دیتے ہیں ان کو تو نہ لاج آتی ہے او رنہ ان کا دل نرم پڑتا ہے کہ عام آدمی کی کیا حیثیت رہ چکی ہے‘یہ نہ ہو پٹرول پمپ بھی ہوں اور ان میں وافر پٹرول بھی ہو مگر گاہکوں کو ڈھونڈے سے بھی دستیاب نہ کرسکیں۔ میں پمپ پر پٹرول ڈالوانے کو رکا تو مجھے پٹرول کے مزید مہنگا ہو جانے کی بابت وہاں معلوم ہوا‘خاموش ہو گیا اور منہ سے کچھ نہ کہہ سکا وہاں کہنے کو کیا باقی تھا‘پھر کہتے بھی تو کس کو کہتے وہاں تو مالکوں کے آگے نوکر او رنوکروں کے آگے چاکر ہیں۔ یہ لڑکے توکٹھ پتلیا ں ہیں‘پٹرول میں اضافہ کے پیسے ان کی جیب میں تھوڑی ہی جاتے ہیں‘جس کے پاس ہزاروں لیٹر پٹرول پڑا ہے وہ پمپ مالک راتوں رات لاکھوں روپے کی آمدن بلا تکلیف وصول کرلیتا ہے‘چاہئے تو یہ کہ جب تک اس کے پاس پرانا سٹاک ختم نہ ہو‘ وہ اسی پٹرول کو پرانے نرخ پر فروخت کرے مگر ہمارے بھائی بند ہوں اور ایسا بھلا کام کریں یہ تو ان کے اخلاق اور کردار سے دور کی بات ہے‘چلو جو ہوا سوا ہوا۔اگر نرخ یہاں پر رک جائیں اور کہا جائے کہ اتنے مہینوں کے لئے ریٹس منجمند کر دیئے ہیں تو دل کو صبر آئے اور انسان پٹرول ڈالتے وقت ماتھے پر بل نہ لائے مگر معاملہ یہاں تک ہوتا تو خودبخود صبر آجاتا‘اب تو حال یہ ہے کہ ایک بار گراں ہوا تو یہ بالکل نہیں سمجھیں کہ بس آپ کی جان چھوٹ گئی بلکہ پٹرول کے اور زیادہ مہنگا ہوجانے کاانتظار کریں‘سو اب جو تین سو میں پٹرول ڈالا وہ خداجانے ہفتہ بعد کتنے فالتو پیسوں میں ڈالنا ہوگا‘ ایک بندہ رو رہا تھا  دوسرے نے جو وہاں سے گذرا پوچھا کیوں روتے ہو‘ اس نے کہا میرے پیٹ کے اوپرسے سانپ گذرگیا ہے‘اس پرپہلے ا س نے کہا تو اس میں رونے کی کیا بات ہے‘بس گذر گیا‘تمہیں نقصان تو نہیں پہنچا نا‘ رونے والے نے کہا اس کا رونا نہیں ہے‘رونا اس کا ہے کہ آئندہ کے لئے یہ سانپ میرے پیٹ پر سے راستہ نہ بنا لے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج