140

حکومتی سرگرمیاں اور عوامی ضروریات

         2018ء کے الیکشن کے بعد جب تحریکِ انصاف اقتدار میں آئی اور پرانے چہرے نئے نام اور قدیم کام کے ساتھ میدان عمل میں اترے۔ الیکشن مہم میں کیے گئے وعدوں ، دعوؤں اور لگائے گئے نعروں سے جب انحراف شروع ہوا۔ اقتدار کے نشے میں مست ہاتھی انسانیت کا بہترین قانون بھول گئے کہ" بہترین انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی زبان کا پکا ہو" مگر انحراف اور  اعراض کا عمل اس قدر کثیر ہو گیا کہ ہر چھوٹے بڑے لیڈر کی طبیعت میں داخل ہو گیا۔ پھر اسے لیڈر کی اعلیٰ صفات قرار دے کر قومی سطح پر" یوٹرن" سے تعبیر کر دیا گیا۔ یعنی اول دن سے اب تک مسندِ اقتدار پر براجمان لوگوں کا یہی طرز رہا ہے مگر ایک چیز جو ہر چھوٹے بڑے کی زبانی برابر سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ" خزانہ خالی ہو چکا ہے اور ملک دیوالیہ ہونے والا ہے" یہ مقتدر احباب کا مشترکہ بیانیہ جو تقریباً دو سال سے جاری ہے اور تاحال اس کی شدت بیانی جوں کی توں ہے مگر عملی طور پر حکومتی سرگرمیوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو " قول و فعل" کا کھلا تضاد دکھائی دیتا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے ایک بیان میں اپنی تنخواہ دو لاکھ بتائی اور کہا کہ اس سے بھی گزارا نہیں ہوتا جبکہ ہم نے کرکٹ ٹیم کے کوچ کی ماہانہ تنخواہ اکتیس لاکھ مقرر کی ہوئی ہے۔ ایک کھلاڑی جو اے گریڈ میں داخل ہے ماہانہ آٹھ سے نو لاکھ تنخواہ لیتا ہے اور ہر میچ کی فیس الگ ہوتی ہے۔ صد حیف کہ اکیس کروڑ کی لاگت سے پی ایس ایل فائیو کی افتتاحی تقریب کو سجایا۔ آتش بازی اور ہلا گلا کے ساتھ پیشہ ور میراثیوں کی جیبوں کو بھی محترم قائد اعظم کی تصویر کے ساتھ مرصع نوٹوں سے بھرا گیا۔
اس کے برعکس عوامی ضروریات لاتعداد ہیں۔ کسی کو تو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح میں ایک مزدور پندرہ ہزار تنخواہ کے ساتھ بیوی بچوں کا پیٹ پالے گا یا حکومتی ٹیکسز کہ ادائیگی میں صرف کرے گا؟ لوگ صرف اس وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کے لیے پیسے درکار نہیں۔ کاروبار بھی حکومتی نوازشات کے پیشِ نظر ٹھپ ہو گئے۔ کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالکان صرف اس وجہ سے محنت کش مزدوروں کو نوکری سے بے دخل کر رہے ہیں کہ ان کے پاس دینے کو پیسے نہیں۔ گھر سے بے گھر افراد اپنے بوریے اور ٹاٹ کے ساتھ فٹ پاتھ پر زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔ کرپشن ، بے حیائ ، معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی ، قتل و غارتگری اور دیگر مقتدر حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کے خلاف تو کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں ہوا کہ جس سے جرائم کی روک تھام ہوئی ہو یا مذکورہ جرائم سے متعلق افراد کو نشان عبرت بنایا گیا ہو۔ حج جیسی عظیم عبادت کی ادائیگی کو اس قدر مشکل بنا دیا کہ ایک عام آدمی کی دسترس میں نہیں۔ ایک طرف ساڑھے پانچ لاکھ کی لاگت سے صرف ایک فرد حج کی ادائیگی کر رہا ہو جبکہ دوسری طرف کروڑوں روپے کے اسراف سے ایک تقریب کا انعقاد ہو رہا ہو۔ صد حیف
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کس قدر پکے مسلمان ہیں کہ میراثیوں اور کنجروں کی فراہمی اور حوصلہ افزائی کے لیے کروڑوں کی لاگت کو غیر معمولی تصور کرتے ہوں اور ایک دینی فریضہ کی ادائیگی کے وقت تنگدستی اور بدحالی کا رونا لے کر بیٹھ جائیں۔ تعلیم کے حصول میں فیسوں کی بھاری مقدار کو رکاوٹ بنا دیں اور جب کسی عرب عیاش شہزادے کی آمد ہو تو ہم خزانوں کے منہ کھول کر اس کے قدموں پر نچھاور کر دیں۔ ہم ملک کے باشعور نوجوانوں کو ٹیکنیکل مہارتوں سے مزین کرنے کے بجائے لنگروں کا افتتاح پرتپاک اور شاندار طریقے سے کر رہے ہوں۔ تو ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں سے قابلِ ذکر طلباء ، مضبوط سچے مسلمان اور ماہر سائنسدان پیدا ہوں گے یا ڈھول کی تھاپ پر تھرتھرانے والے جسم اور دیگوں کی تقسیم پر لڑائی کرنے والے بھوکے مجاہدین نکلیں گے۔
حکام بالا سے دست بدستہ اپیل ہے کہ خدارا مہنگائی کے رونے کے بجائے خوشحالی کی مصدقہ خبروں سے عوام کی ڈھارس باندھیں۔ خلافِ شرع کاموں کو ترک کر کے فرائضِ دینیہ کی ادائیگی کو سہل ترین بنانے کی سر توڑ کوشش کریں۔ کیونکہ " جب خدا راضی ہوتا ہے تو اپنی نعمتوں کی نہ تھمنے والی بارشیں برساتا ہے"
 

بشکریہ اردو کالمز