حالات میں الجھی ہوئی زلفیں

کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کون کیا کہہ رہاہے، کیوں کہہ رہا ہے اور کس کو کہہ رہا ہے‘ہر کوئی اپنی بات منوانے پر تلا ہوا ہے ہر دوسرا بندہ شک اور بے چینی کے ایک ایسے مرض میں مبتلا نظر آرہا ہے جس کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں اگر آج وہ زندہ ہوتے‘ ایک بھیڑ ہے، ایک ہجوم ہے جو بے سمت اور بے مقصد سفر سے نبرد آزما ہے‘ایک شور ہے جو ہر سو سنائی دے رہا ہے‘ اسباب نہ تو شور مچانے والے کو معلوم ہیں اور نہ ہی سننے والے کو اس بات کا کوئی ادراک ہے کہ اگلا بندہ شور کیوں مچارہا ہے اور یہ کہ وہ کیا کہنا یا کہلوانا چاہ رہا ہے‘کوئی کسی پر اعتماد نہیں کررہا ہاں اعتراض ہر کوئی کررہا ہے‘سازشی تھیوریاں پاکستان میں عروج پر ہیں نہ کوئی دلیل نہ کوئی وجہ اور نہ کوئی حل‘بس الزامات پر الزامات اور ایسے بیانات کی بھرمار جس کا نہ تو پس منظر کا کسی کو علم ہے نہ پیش منظر کا کوئی ادراک‘ کوئی بھی شخص، طبقہ، پارٹی یا ادارہ اس صورتحال سے مبرا نہیں بلکہ سب ایک ایسی دھند یا بھنور میں پھنسے دکھائی دے رہے ہیں جہاں سے بحفاظت نکلنا ممکن ہی دکھائی نہیں دے رہا‘سیاسی وفاداری کا پیمانہ یہ رہ گیا ہے کہ کون کتنی گالیاں دے سکتا ہے اور مخالفین پر کتنے الزامات لگا سکتا ہے‘سیاست نے کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے اور نام خدمت کا لیا جارہا ہے‘سیاست اور معاشرت میں اخلاقیات اور روایات کو پسماندگی کا نام دیا جانے لگا ہے اس پر ستم یہ کہ یہ سب کچھ عام لوگوں کے ہاتھوں نہیں ہورہا بلکہ یہ تمام رویے پڑھے لکھے حلقوں نے اپنا رکھے ہیں‘ ڈگری ہولڈرز تربیت کو پس پشت ڈال کر بے چارے عوام کی سادگی اور بے چارگی دونوں کا مذاق اڑانے کے علاوہ اپنی تعلیم و تربیت کا بھی تماشا لگاتے نظر آرہے ہیں‘سوشل میڈیا کے کی بورڈ واریررز کسی بھی وقت حقائق اور نتائج کا احساس کئے بغیر کسی پر بھی کیچڑ اچھالنے اور گولی چلانے کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور ایسا کرتے وقت نام لیا جاتا ہے‘ اظہار رائے اور معلومات کے تبادلے کا‘یہ صورت حال اچانک نہیں بنی بلکہ اس کے لئے برسوں کی ذہن سازی اور تیاری کی گئی ہے‘کوشش کی گئی کہ عوام، ملک اور مذہب کے نام استعمال کرکے معاشرے کو تقسیم کیا جائے اور سماجی، سیاسی اور مذہبی تفریق کو اس انداز میں نفرت کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے کہ کوئی بھی قابل اعتبار نہ رہے‘اپنی بات  درست منوانے کے مرض لاعلاج نے پاکستان کو بداعتمادی اور بے چینی کے ایسے حالات سے دوچار کردیا ہے کہ اس مملکت میں ہونیوالے اچھے کام کسی کو نظر نہیں آرہے‘یہاں ہونے والی ترقی اور استحکام کا کوئی ذکر ہی نہیں کرسکتاہر شعبے میں روزانہ کی بنیاد پر ہیروز پیدا ہورہے ہیں مگر ان کی نہ تو کوئی بات کرتا ہے نہ ہی ان کی کوئی حوصلہ افزائی ہورہی ہے‘اکثر نے مخصوص قسم کے کالے چشمے لگا رکھے ہیں جن کے ذریعے دوسروں کے علاوہ اپنے ملک، عوام اور دنیا کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور ان چشموں کے ذریعے سب کچھ برا ہی دیکھنے کی گویا قسم کھائی گئی ہے‘دنیا میں ہر جگہ مسائل بھی ہوتے ہیں، مشکلات بھی اور کمزوریاں بھی مگر کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بتدریج اجتماعی کردار کے ذریعے بہتری اور تبدیلی لائی جاسکے‘مگر یہاں کوشش یہ جاری ہے کہ اگر کہیں کچھ اچھا ہورہا ہے تو اس کو بھی متنازعہ اور مشکوک بناکر اسے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی نذر کیا جائے‘ہر کوئی ہر بات اور ہر کام کرنا جانتا ہے‘ اگر نہیں جانتا تو اپنے حصے کا کام درست طور پر سرانجام دینا‘ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پورا معاشرہ بے چینی اور انتشار کا شکار ہے‘کوئی جنگ کو دولت اور شہرت کمانے کا ذریعہ بنا بیٹھا ہے تو کوئی امن برائے فروخت کی دکان سجائے نظر آرہا ہے‘اس تمام تر صورتحال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہم ایک ایسی ناراض نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں جس کے پاس بے پناہ صلاحیتیں ہیں مگر ان کے پاس درست سمت کا تعین نہیں ہے‘یہ سب ہمارے مستقبل کے معمار بننے جارہے ہیں اور یہ معاشرہ اور ملک مستقبل میں ان کے ہاتھوں میں ہوگا مگر ہم اپنے انہی رویوں کے ذریعے اس نسل کو نفرت، انتقام، عدم تحفظ اور بے چینی کے کنویں میں دھکیلنے پر تلے ہوئے ہیں‘وقت آگیا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی حالات کی الجھی ہوئی زلفوں کو مذید الجھانے کی بجائے اپنی آنیوالی نسلوں کو ایک مثبت اور تعمیری مستقبل کی راہ پر گامزن کریں ورنہ ہم نہ صرف اپنا حال تباہ کرنے کے ذمہ دار ہوں گے بلکہ تاریخ اور ہماری یہ نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی‘بقول نیلسن منڈیلا بہتر مستقبل کا آسان نسخہ یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اور سب کو معاف کرکے آگے بڑھا جائے اور تلخیوں کو بھلا دیا جائے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج