528

میری پہلی رشوت ۔

ہم روزانہ کی بنیاد پر جب چیزوں کو استعمال کرتے ہیں تو بہت ساکوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے جسے ہم اپنے گھر میں باہر کی ٹوکری میںرکھ دیتے ہیں اور صفائی والا اس سے روزانہ لے جاتا ہے اسی طرحپاکستان میں یقینا روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہےجس میں سے انتہائی تھوڑی مقدار کو ری سائیکل کر کے دوبارہقابل استعمال بنا دیا جاتا ہے ۔روزانہ پیدا ہونے والا یہ لاکھوں ٹنکوڑا یقینا کروڑوں کی مالیت کا ہوتا ہے ۔اگر ہم اس ضائع ہونے والےسرمایہ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سے متعلق آگاہیضروری ہے کہ ہم اس کی پیداوار کو کیسے کم کر سکتے ہیں اور اسکو ری سائیکل کرنے کے کیا طریقہ کار ہیں ؟ جب ہمیں حقیقی طورپر اس بات کا علم ہوگا کہ ہم مجموعی طور پر روزانہ کتنی مالیت کاسرمایہ ضائع کرتے ہیں تو ہمیں اس معملہ کا مزید بہتر احساس ہوگا۔یہ کوڑا کرکٹ ضائع ہونےکے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی اوردیگر اسی قسم کے مزید مسائل پیدا کرتا ہے جن کو حل کرنے کے لیےہمیں مزید سرمایہ لگانا پڑتا ہے ۔ انسان جہاں رہتے ہیں وہاں کوڑاپیدا کرتے ہیں۔ یہ کوڑا صرف ہمارے گھروں سے پیدا نہیں ہوتا بلکہہماری فکر ،تربیت اور عمل سے بھی سماجی کوڑا پیدا ہوتا ہے جو ہمارے سماج میں آلودگی پیدا کرتا ہے روزانہکی بنیاد پر کئی کروڑوں کی رشوت کے لین دین ہمارے سماج میںلاکھوں ٹن کا معاشرتی کوڑا پیدا کرتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ2012 میں جب میں ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت کرتا تھا تومجھے وہاں کے کلرک سے پتہ چلا کہ کسی بھی درخواست پر ادارہکے سربراہ کے دستخط کروانے کے لیے آپ کو کچھ جبری تحفہ اداکرنا پڑتا ہے ۔ وہ میری عملی زندگی کے ابتدائی دن تھے جب میں اسعمل کو کرنے کے تمام مراحل سے ناواقف تھا۔ مجھے اس بات کا علمبہرحال ہو گیا تھا کہ بغیر جبری تحفہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتے ۔ان ابتدائی دنوںمیں اپنی معصومیت اور سماجی رواج کی کشمکش میں، میں صرفاس سوچ بچار میں تھا کہ ادارے کے سربراہ کو یہ تحفہ کیسے دیاجائے ۔ جب بھی میں ان کے دفتر میں جانا ہوتا تو بہت سے لوگ وہاںموجود ہوتے تو ان کے سامنے اس طرح سے تحفہ دینا مناسب نہیں لگ رہا تھاسوچ بچار کے بعد ایک معصومانہ سی ترکیب سوجھی، میں نے ایککتاب خریدی اور لفافے میں تحفہ ڈال کر اس کتاب میں رکھ دیےاگلے دن جب میں ان کے دفتر میں گیا تو وہاں پہلے کی طرح کافیلوگ موجود تھے۔ میں بھی وہاں جا کر بیٹھ گیا اور جب انہوں نےمجھے بلایا تو میں نے سبھی لوگوں کے سامنے وہ کتاب پیش کی اورکہا کہ یہ آپ کے ذوق کے مطابق ہے ، آپ اسے قبول فرمائیں مجھےانتہائی خوشی ہوگی ، انہوں نے کتاب کو معمولی سا کھولا ، لفافےکو دیکھا اور میری اس ترکیب کو نیم ہنسی میں سراہا ۔کچھ دیر کےبعد میں دوبارہ اپنی نشست سے اٹھا اور اپنی درخواست کو ان کےسامنے رکھا ۔انہوں نے بیٹا کہہ مجھے مخاطب کیا اور اس پردستخط کر کے کلرک کو جمع کروانے کا کہہ دیا ۔عملی میدان میں یہمیری پہلی فتح تھی، گو کہ اس کے بعد بھی کئی فتوحات نصیبہوئیں ۔ ہمارے معاشرے میں یہ سماجی اور فکری کوڑا کرکٹ اس حدتک بڑھ گیا ہے کہ ہر نئی پیدا ہونے والی سوچ اور تخلیقی شعور اسکے نیچے دب کر رہ گیا ہے ۔اس سماجی کوڑا کرکٹ کو کم اور ریسائیکل کرنے کہ بہت سے طریقے ہوں گے مگر ان میں سے ایکطریقہ یہ بھی ہو سکتا ہےکہ ہم اونچی آواز میں سوچنا شروع کریں ۔اپنی اپنی جگہ پر اس کوڑے کو برداشت کرتے رہنا اس کے ڈھیر کومزید بڑھا کرتا جاتا ہے ۔ اگر ہم انفرادی سطح پر اس کی پیداوار کوکم نہیں کر سکتے تو اپنے اپنے کوڑے کو جس قدر ممکن ہو ریسائیکلکرتے جائیں ۔ سماجی بیماریوں کے متعلق بحث ، فکری اور عملی سطح پر ان کا اظہار کسی نہ کسی درجہمیں اس کوڑا کو ری سائیکل کرنے میں یقیناً مدد گار ثابت ہو سکتاہے ۔

بشکریہ اردو کالمز