101

عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد زیر التوا مقدمات

 لاءاینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان ہر چھ ماہ بعد پاکستان میں زیر التوا مقدمات کی رپورٹ جاری کرتا ہے۔ رواں ماہ لاءاینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے زیر التوا مقدمات کی رپورٹ جاری کر دی۔
زیر التوا مقدمات کی تعداد:
ششماہی رپورٹ کے ہوشربا انکشافات کے مطابق 31دسمبر 2023 تک  ملک بھرکی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 22 لاکھ 60 ہزار 3سو چھیاسی تک پہنچ چکی ہے۔جبکہ30جون 2023میں یہ تعداد 21لاکھ76ہزار361تھی۔ یعنی سال 2023کی پہلی ششماہی کے مقابلہ میں دوسری ششماہی میں ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں مجموعی طور پر  3اعشاریہ9فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 56,155ہوچکی ہے جبکہ جون 2023 میںمقدمات کی تعداد 55,302تھی۔ ہائیکورٹس میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 3 لاکھ 42 ہزار اور 334 ہوچکی ہے جبکہ پہلی ششماہی کے اختتام پر یہ تعداد 3لاکھ32ہزارایک سو اکتالیس تھی۔وفاقی شرعی عدالت میں زیرالتواء مقدمات 85ہے جبکہ پہلی ششماہی کے اختتام پر یہ تعداد 102تھی۔ماتحت عدلیہ یعنی ضلعی عدالتوں میں زیر التوامقدمات کی تعداد 18لاکھ 61ہزاراور آٹھ سو بارہ ہوچکی ہے جبکہ پہلی ششماہی کے اختتام پر یہ تعداد 17لاکھ 88ہزاراور 816تھی۔درج بالا اعدادوشمار کے مطابق مجموعی مقدمات کا 18فیصد حصہ سپریم کورٹ و ہائیکورٹس میں زیرالتوا ہے۔جبکہ 82فیصد مقدمات ضلعی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
مقدمات کا اندراج و فیصلہ جات:
سال 2023کی دوسری ششماہی میں سپریم کورٹ نے  8,666  مقدمات کے فیصلے جاری کئے۔ وفاقی شرعی عدالت نے 49مقدمات کے فیصلےصادر کئے۔ ہائیکورٹس نے اسی عرصہ میں ایک لاکھ 2,367  مقدمات نمٹائے۔جبکہ ضلعی عدالتوں میں21لاکھ97ہزار379مقدمات کے فیصلے صادر کئے۔مجموعی طور پر پاکستان کی تمام عدالتوں نے  23لاکھ 8ہزار 461  مقدمات کے بعد فیصلے جاری کئے گئے۔ جولائی سے دسمبر 2023کے دوران ملک بھر کی عدالتوں میں 23لاکھ 81ہزار464نئےمقدمات کا اندراج ہوا ۔ جسکی ترتیب کچھ یوں ہے۔سپریم کورٹ میں 9,519مقدمات، وفاقی شرعی عدالت میں 32مقدمات، ہائیکورٹس میں ایک لاکھ 3,090مقدمات جبکہ ضلعی عدالتوں میں 22لاکھ 58ہزار823مقدمات کا اندراج ہوا۔
فوجداری و دیوانی مقدمات کا تناسب:
ملک بھر میں قائم صوبائی اور اسلام آباد ہائیکورٹس میں زیر التوا مقدمات کا 19فیصد فوجداری جبکہ 81فیصد دیوانی نوعیت کے مقدمات پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ضلعی عدالتوں کے زیر التوا 36فیصد فوجداری مقدمات جبکہ 64فیصد حصہ دیوانی نوعیت کے مقدمات پر مشتمل ہے۔
زیرالتوامقدمات کی وجوہات و ممکنہ حل:
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ  عدالتوں میں زیرالتوامقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جسکی متعدد وجوہات ہیں جیساکہ سپریم کورٹ سے لیکر ضلعی ماتحت عدالتوں تک ججز کی کم تعداد کا ہونا ، حوالہ کے طور پر سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کا تعین سال 1997میں کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بشمول چیف جسٹس 17ججز پر مشتمل ہوگی۔ جبکہ اس وقت پاکستان کی آبادی 13کروڑ نفوس پر مشتمل تھی جبکہ آج 24کروڑ کی آبادی کے لئے وہی 17ججز سپریم کورٹ میں براجمان ہوتے ہیں۔ یہی حال تمام ہائیکورٹس و ماتحت ضلعی عدالتوں کا ہے۔اسکے ساتھ ساتھ ججز کی خالی آسامیاں جنکو بروقت پُر نہیں کیا جاتا۔ مدعی و مدعا علہیاں کی جانب سے تاخیری حربوں کا بھرپور استعمال بھی مقدمات کو جلد نمٹانے میں بہت بڑی رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ من گھڑت درخواستوں کےذریعے عدالتوں کا وقت ضائع کیا جاتا ہے ، ان تاخیری حربوں کی بناء پر سالوں بلکہ عشروں تک مظلوم دادرسی سے محروم رہتے ہیں۔ حصول انصاف کے لئے سائلین کورٹ کچہری کے چکر لگاتے لگاتے جوتیاں گسانے کے ساتھ ساتھ جائیدادیں بیچنے تک مجبور ہوچکے ہوتے ہیں۔ پاکستان آزاد ہوئے 76سال سے زائد ہوچکے ہیں مگر حصول انصاف کے لئے پاکستان کا عدالتی نظام آج بھی تاج برطانیہ کے زیر سایہ متحدہ ہندوستان کے وقت کے بنائے گئے قوانین مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860,، مجموعہ ضابطہ دیوانی 1908، مجموعہ ضابطہ فوجداری ,1898، مخصوص ریلیف ایکٹ، 1877، لمیٹیشن ایکٹ، 1908 پر انحصار کرتا ہے۔ یہ قوانین کن حالات میں بنائے گئے ان پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہ ہے۔مسلمانان ہند نے تاج برطانیہ سے چھٹکارا تو حاصل کرلیا مگر آج تک تاج برطانیہ کے قوانین کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے نہ اُتارسکے۔ پاکستان میں فوجداری ٹرائلز میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ روایتی اور پیچیدہ تفتیشی نظام ہے ۔ عدالتی کاروائی سے پہلے کئی ماہ تھانہ کی تفتیش ہی میں گزرجاتے ہیں۔ معمولی لڑائی جھگڑے کے مقدمات کی تفتیشی رپورٹ جسے چالان کہا جاتا ہے اس میں بھی کئی کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔فی الحال آبادی کو کنٹرول کرنا ناممکنات میں سے ہے بہرحال ان مسائل کے حل کی بابت ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے تھانوں، عدالتوں اور ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ اگر پنچائتی اور ثالثی نظام عدل کو فعال کرلیا جائے تو عام آدمی کو تھانہ کچری کے چکروں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑے جسکی بدولت تھانہ کچہری پر بوجھ کم ہوگا۔ فوری اور سستے انصاف کے حصول کی بابت پارلیمنٹ سے نئے قوانین متعارف کروائے جائیں۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 37(d)کے تحت ریاست پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ سستے اور فوری انصاف کو یقینی بنائیں اور آرٹیکل 2Aقرارداد مقاصد کے مطابق ایسی ریاست قائم کی جائے گی کہ جس میں اسلام کی طرف سے بیان کردہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں کی مکمل پابندی کی جائے گی۔عوام الناس کے لئے حصول انصاف کو یقینی بنانا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اور یہ ذمہ داری ریاست کے تینوں ستونوں یعنی انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کی باہمی ہم آہنگی اور تعاون کے بغیر ممکن نہ ہوپائے گی۔

بشکریہ اردو کالمز