356

تماشبین اشرافیہ 

موضوعات اور بھی ہیں، قطاور اندر قطار لیکن فی الوقت چندی بی بی (سیدہ عابدہ حسین) کی کتاب ’’اور بجلی کٹ گئی‘‘ پر بات کرتے ہیں۔
 چندی بی بی لکھتی ہیں کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی ریلی ایک انوکھا تجربہ تھا۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ دس لاکھ افراد کا تھا مگر میرے خیال میں ریلی کے شرکا کی تعداد  ایک لاکھ تک ہوگی ۔ 
 بڑی مایوس کن تھی ایشیا کی سب سے بڑی ریلی۔ کے ایم سی بلڈنگ میں مجھے واش روم جانے کی ضرورت پڑی۔ واش روم کی حالت کسی بھی پبلک ٹوائلٹ سے مختلف نہ تھی۔ میں خاموشی سے واپس اجلاس والے کمرے میں پہنچی اور پروفیسر غفور کی خالی کردہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ الطاف حسین نے ایک چپڑاسی کو بھیج کر دریافت کروایا کہ مجھے ٹوائلٹ مل گئی۔ 
چپڑاسی کوبتایا کہ وہاں گندگی بہت ہے۔ حیرت کی انتہا ہوئی جب الطاف حسین نے قومی اسمبلی کے رکن عمران فاروق اور عظیم طارق کو حکم دیا ٹوائلٹ ٹھیک طرح سے صاف کریں تاکہ مہمان بہن استعمال کر سکے ۔ کوئی دس منٹ بعد عظیم طارق مجھے ادب کے ساتھ کمرے سے باہر اسی ٹوائلٹ کی طرف لے گئے جواب بالکل صاف ستھرا تھا۔
 کراچی سے واپس اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچی تو ایئرپورٹ پر 13/14سالہ بیٹا عابد لینے آیا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر شرارت کے بجائے سنجیدگی دیکھ کر پریشانی ہوئی۔ خیریت دریافت کی تو وہ بولا چنو، جھنگ میں مولوی حق نواز قتل ہوگیا ہے۔ 
کس نے خبر دی؟ اس نے کہا کچھ لوگوں نے فون پر باجی اماں (میری والدہ) کو اطلاع دی ہے۔ گھر پہنچ کر جھنگ میں مرزا مختار ایڈووکیٹ کو فون کیا۔ ان سے دریافت کیا ماجرا کیا ہے۔ میں نے کہا امید ہے مولوی جھنگوی مخالف فرقے کے کسی شخص کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا ہوگا۔ 
مرزا مختار بولے عینی شاہدین نے ایثارالقاسمی (یہ بعد میں سپاہ صحابہ کے سربراہ ہوئے) کو ان کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔ قاسمی جھنگوی کے گھر میں ہی رہتا تھا۔ جونہی قاسمی گھر سے باہر نکل کر روانہ ہو   پیچھے جھنگوی گھر سے باہر نکلا فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ مولوی جھنگوی زخمی ہوکر گرا۔ ہسپتال لے جاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ 
کچھ لوگ شیخ اقبال کے خلاف نعرے لگارہے ہیں اور کچھ مخالف فرقے کے خلاف۔ مرزا مختار بیگ کے بیان کی تائید دیگر افراد نے بھی کی۔ جھنگ سے پولیس غائب ہوگئی۔ حق نواز کے کارکنوں نے شہر میں بلوے جیسے حالات پیدا کردیئے۔ کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ ایس ایس پی اور ڈپٹی کمشنر کہہ رہے تھے امن و امان شدید مسائل ہیں۔
 ’’حق نواز جھنگوی نے 1988 میں سیدہ عابد حسین کے خلاف قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر جھنگ سے الیکشن لڑا تھا وہی انجمن سپاہ صحابہ کے بانی تھے لیکن جس دلچسپ بات کا ذکر چندی بی بی نے اپنی کتاب میں نہیں کیا وہ ہے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں مولوی حق نواز جھنگوی کا چندی بی بی کے انتخابی جلسوں سے خطاب کرنا ہے ‘‘۔
چندی بی بی کے بقول انجمن سپاہ صحابہ بنوانے میں جنرل ضیاء الحق سمیت کچھ جرنیل اور سعودی عرب ملوث تھے۔
 الٰہی بخش سومرو کا فون آیا انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن نے میری طرف سے انجمن سپاہ صحابہ کے ذمہ داروں سے بات کی ہے وہ (انجمن والے) کہتے ہیں کہ ہم ایف آئی آر میں مخالف فرقے کے چند افراد کا نام لکھوائیں گے جو شہر میں موجود تھے۔ میں چونکہ شہر میں نہیں تھی اس لئے مجھے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
مجھے  کہا گیا کہ  احتیاط کروں اور ابھی جھنگ  نہ جائوں‘‘۔
 میں نے مولوی حق نواز جھنگوی کی بیوہ سے ٹیلیفون پر بات کی وہ بولیں آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔ میں نے جواب دیا میرا آپ سے کوئی اختلاف نہیں فاتحہ کے لئے آنا چاہتی ہوں‘‘۔ اس نے کہا آنے کی ضرورت نہیں، ٹیلیفون پر فاتحہ پڑھ لیں۔ مجھے آپ کی مدد کی ہرگز ضرورت نہیں۔بھائی اسامہ بن لادن ہماری تمام ضرورتوں کا خیال رکھتا  ہے ان کا نام سن رکھا ہوگا آپ نے وہ بہت مشہور سعودی ہے اور آپ سب سے زیادہ امیر‘‘۔
 6اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی دفعہ 58/2Bکے تحت بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔ اسی دن غلام مصطفی جتوئی نے نگران وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا۔ 
چاروں گورنروں نے صوبوں میں نگران وزیراعلیٰ مقرر کئے۔ میر افضل صوبہ سرحد، غلام حیدر وائیں پنجاب، جام صادق علی سندھ اور ظفر اللہ جمالی بلوچستان کے وزیراعلیٰ نامزد ہوئے ۔ نگران کابینہ میں مجھے (چندی بی بی) وزیر اطلاعات نامزد کیا گیا۔ 
(کاش اس مقام پر چندی بی بی صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرنے کے حکم سے ایک دن قبل 5 اگست کو اسلام آباد کلب میں ہونے والے اس اجلاس کی کہانی اور اجلاس کے شرکاء کے چہروں سے بھی پردہ اٹھادیں اسی اجلاس کے خاتمے پر جنرل حمید گل، غلام مصطفی جتوئی، میاں نوازشریف اور خود چندی بی بی پر مشتمل چار رکنی وفد نے ایوان صدر جاکر غلام اسحاق خان سے ملاقات کی اور منتخب حکومت برطرف کرنے کے سازشی عمل میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کو کہا)۔ 
اسلام آباد کلب میں منعقدہ اجلاس میں ہی نگران وزیراعظم اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر اتفاق ہوا تھا اور صدر سے ملاقات کرنے والے وفد نے انہیں ایک فہرست بھی دی۔ بعدازاں( نگران وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزراء میں سے 80 فیصد اسی فہرست سے تعلق تھا) 
ایک دن نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی نے فون کرکے مجھے سندھ ہائوس میں متحدہ حزب اختلاف کے اجلاس میں شرکت کے لئے دعوت دی۔ اجلاس کے دوران نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا فضل الرحمن اور خان عبدالولی خان نگران وزیراعظم سے شکایت کرتے رہے کہ ان کے حلقوں میں پراسرار طور پر ایک ایک تیسرا امیدوار سامنے آیا ہے جس کے بارے میں شنید ہے کہ اسے انٹیلی جنس والوں نے کھڑا کیا ہے۔ 
نگران وزیراعظم کا جواب تھا انٹیلی جنس ایجنسیاں میرے دائرہ اختیار میں نہیں۔ میں ان کے سربراہوں اور آئی جے آئی کے سربراہ میاں نوازشریف سے بات کروں گا۔ (یاد رہے کہ 1990ء کے یہ وہی تاریخی عام انتخابات ہیں جن میں خان عبدالولی خان ایک دیوبندی عالم دین مولانا حسن جان سے شکست کھاگئے۔ بعدازاں انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا عبدالولی خان سیاسی امیدوار سے نہیں آئی ایس آئی کے امیدوار سے ہارا ہے)۔
 سیاست میں ایجنسیوں کے اس کردار پر خان عبدالولی خان نے ہمیشہ کے لئے سیاست کو خیرباد کہہ دیا۔ (ہائے اس زود پشیماں کا پیشماں ہونا۔ بینظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے لئے ایجنسیوں کی سازش کا کردار بننے والوں کو اب ایجنسیوں سے ہی شکوہ تھا)
1990ء کے انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے عمل میں ایک دن مجھے جھنگ سے میرے ساتھیوں نے اطلاع دی کہ میاں شریف کے ایما پر  ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے غازی صلاح الدین نے بھی این اے 69 سے مخالف امیدوار کے طور پر کاغذات داخل کئے ہیں۔ صلاح الدین نے 1988ء میں بھی ان اے 67سے میرے خلاف کاغذات داخل کئے تھے بعدازاں 50 ہزار روپے لے کر کاغذات واپس لے لئے تھے۔ 
غالباً اب بھی اس کی خواہش تھی کہ اسے کچھ رقم دی جائے۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ جب دوستوں نے یہ اطلاع دی کہ صلاح الدین کہتاہے کہ اسے اسلام آباد کے کچھ دوستوں نے کاغذات جمع کروانے کا کہا ہے البتہ اگر 5 لاکھ روپے دیئے جائیں تو وہ بیٹھ جائے گا۔
 میرے حامیوں نے اسے 5 لاکھ روپے دیئے مگر اس نے کاغذات واپس نہ لئے۔ یوں میں این اے 69سے شکست کھاگئی۔ 
چندی بی بی کی داستان سیاست اور بھی بہت کچھ  ہے لیکن میرے پڑھنے والوں کے لئے بس اتنا ہی بہت ہے۔ 
کیا کمال کی چمڑی اور نظریات ہیں ہماری بالادست اشرافیہ کے ان کے لئے ایجنسیوں کی سازشوں میں کردار ادا کرنا حب الوطنی کا درجہ رکھتا ہے مگر جب وہی ایجنسیاں انہیں ہاتھ کی صفائی دکھائی ہیں تو یہ گھنائونی سازش قرار پاتی ہے۔ 
سیاست کے تماشبین اپنی جیبوں کے کٹ جانے پر تو غمزدہ ہوتے ہیں مگر اس ملک کے محکوم طبقات کے ساتھ اقتدار کے اصلی مالکوں کے ساتھ مل کر جو سلوک کرتے ہیں اس پر انہیں  کبھی ملال نہیں ہوتا۔ 
چندی بی بی مجھ طالب علم کے لئے بہرطور قابل احترام ہیں مگر تاریخ سیاست کے اپنے اندازواطوار ہیں۔ ان کی کتاب ’’اور بجلی کٹ گئی‘‘ ان کی داستان حیات بھی ہے اور داستانِ سیاست بھی۔ پچھلی پانچ دہائیوں کی تاریخ کے عینی شاہدین کے لئے ان کی کتاب میں آدھے سچ کی بھرمار ہے۔ 
پورا سچ دوسروں کی طرح انہیں بھی مرغوب نہیں۔ ہم سب اس سماج میں جی رہے ہیں جہاں احتساب ذات اور تہذیب نفس سے زیادہ پندووعظ کی ہبلاس کے مارے دندناتے پھرتے ہیں۔ پھر بھی شکر ہے کہ چوتھائی، آدھا اور پونا سچ سامنے تو آتا ہے اگلی نسل کے محققین تحقیق کریں گے اور پورے سچ کو پالیں گے۔

بشکریہ اردو کالمز