"صُورتیں بُزرگوں کی رحمتیں ہیں اُس رب کی
ان سفید بالوں سے سارا گھر چمکتا ہے۔"
"اولڈ ایج ہوم" معاشرہ کا وہ ناسور ہے جسے میں اور آپ ہم سب چاہ کر بھی ختم نہیں کرسکتے یا شاید ختم کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اولڈ ایج ہوم کا تصور ویسے تو مغربی مُمالک میں پیدا ہوا مگر دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی روایت بنتا چلا گیا یعنی اس کا دإرہ مغرب سے زیادہ مشرق میں وسیع ہوتا چلا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ وہ گھر گھر نہیں ہوتا جہاں بچّے اور بُزرگ نہ ہوں۔ زندگی انہی کے دم سے روشن ہوا کرتی ہے۔ پھر یہ کیسے مُمکن ہے کہ کوٸ خود اپنے ہی ہاتھوں اس روشن چراغ کو بُجھادے۔۔۔۔؟؟؟ تلخ حقیقت ہے مگر ہے تو سچ ہی جسے ہم سب جانتے بُوجھتے نظر انداز کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ والدین یا بُزرگوں کو اولڈ ایج ہوم بھیجنے کے سو طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی دلیلیں بھی بڑی ڈھیٹاٸ سے پیش کی جاتی ہیں۔ اس پر ستم ظرفی اور بے حسّی اتنی کہ اُنہیں وہاں خود چھوڑ کر جانے والے پلٹ کر خیر خیریت پوُچھنے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ صد افسوس ایسا کرنے والے شاید فطرت کے اس قانون کو یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ یہ "دنیا مکافاتِ عمل" ہے۔ جیسا کرینگے عنقریب ویسا ہی پاینگے۔ آج والدین کو اولڈ ایج ہوم بھیجنے پر مجبُور ہونے والے کل خود لاچارگی اور بے بّسی کا نشانہ بنیں گے۔ کوٸ کیسے اتنا بے رحم، بے حِّس بن جاتا ہے کہ اپنے عزیز اپنے پیاروں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔۔۔۔؟؟؟ کیا واقعی طا قت اور دولت کا نشہ خونی رشتوں کا خون کردیتا ہے۔۔۔؟؟؟
انسان کا بھی کوٸ جواب نہیں۔ جب خود کمزور اور شیرخوار بچّہ ہوتا ہے تو ماں باب اس کو پال پوس کر اس کی تربیت کر کے اسے معاشرہ کا ایک قابل شخص بناتے ہیں مگر پھر اسی قابل شخص کو ان کا وجود اپنی راہ کانٹا محسوس ہونے لگتا ہے۔ یک دم ان کی موجودگی چھُبنے لگتی ہے۔ تھک ہار کر اسے اولڈ ایج ہوم ان کے لیے بھلا لگنے لگتا ہے۔ نادان یہ نہیں جانتا کہ انسان کو سکون صرف اس کے اپنے گھر میں اپنوں کے درمیان ان کے ساتھ رہ کر ملا کرتا ہے۔ زندگی گُزارنے کے لیے جو اعتماد اور تحفُّظ درکار ہوتا ہے وہ اہنی چھت اپنے گھر کے علاوہ کسی اولڈ ایج ہوم میں مل ہی نہں سکتا۔
بُوڑھاپے میں والدین کو سنبھالنا، ان کی دل و جان سےخدمت کرنا، ان کی دل آزاری سے بچنا اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ دینا بے شک ایک صبر آزماں کام ہے بلخصوص آج کی بے ہنگم اور افراتفری والی زندگی میں جہاں عدم برداشت معاشرہ کی رِوش بن چُکی ہے۔ مگر یقین مانیے کوٸ بھی چیز نا مُمکن نہیں خود "نا مُمکن" میں بھی "مُمکن" پوشیدہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غلط کو غلط مان کر صحیح راہ چُنی جاۓ اور طے کرلیا جاۓ کہ والدین یا بُزرگ "سر کے تاج" ہوتے ہیں اُنہیں کسی صورت اولڈ ایج ہوم کی ڈھول نہ بنّنے دیا جاۓ۔ اس عزم کے ساتھ نہ صرف کٸ اُجڑے ہوۓ گھروں کو دوبارہ آباد کیا جا سکتا ہے بلکہ اولڈ ایج ہوم میں مُقیم لاکھوں افراد میں اُمید کی کرن بھی روشن کی جا سکتی ہے۔
"اہنے حصے کی شمع تو ہر ایک کو روشن کرنی چاہیے کیا خبر اس سے تاریک رات روشن صُبح میں تبدیل ہوجاۓ۔"