337

ماسٹر آف مائنڈ گیم؟

کورونا وائرس کی پہلی لہرکے دوران ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ ہوچکاتھا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہنگامی حالت نافذ تھی۔ مارکیٹس‘ادارے‘شاہراہیں ویران جبکہ ہرفرد انتہائی پریشان تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے ہرہفتے اینکرز کیساتھ ایک نشست رکھنے کا فیصلہ کیا۔ایک گھنٹے سے زائد طویل اس نشست کو پی ٹی وی براہ راست نشر کرتا تھا۔ وزیراعظم اینکرز کے سوالات کے جواب دینے سے قبل حکومتی اقدامات سے متعلق عوام کو تفصیل کیساتھ آگاہ کرتے۔3مارچ 2020ء کو وزیراعظم آفس کی جانب سے خاکسار کو بھی اس نشست کیلئے مدعو کرلیا گیا۔ وزیراعظم کے خطاب کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا،تو خاکسار نے وزیراعظم سے سوا ل کیا ’’وزیراعظم صاحب آپ وہ لیڈر ہیں جس نے ریاست مدینہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا مگر ریاست مدینہ میں عفو ودرگزراور دشمنوں کو معاف کرکے آگے بڑھنے کا فلسفہ آپ نے کیوں نظرانداز کررکھا ہے۔پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے ‘آپ سیاسی مخالفین کو ہر روز للکارنے کی بجائے اُن کا معاملہ عدالتوں اور نیب کے سپرد کرکے غیرجانبداریت کی عملی مثال قائم کیوں نہیں کردیتے۔‘‘وزیراعظم نے میرے سوال کا جواب میں سات منٹ میں دیا مگر اپوزیشن کی دھمکیوں اور سخت الفاظ سے ایسے دُرگت بنائی کہ الامان والحفیظ۔ وزیراعظم کے لب ولہجے اور ٹھوس موقف سے اسی دن واضح ہوگیا تھا کہ ملک کو درپیش چیلنجز اپنی جگہ مگراپوزیشن کیساتھ جاری لڑائی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی۔وزراء اور حکومتی ٹیم اپنی تمام ترتوانائی عوامی مسائل حل کرنے اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی بجائے اپوزیشن کے خلا ف استعمال کریں گے جس کا نتیجہ خطرناک نکلے گا۔وقت گزرنے کیساتھ اپوزیشن نے صف بندی کرنا شروع کردی۔ اپوزیشن رہنماؤں کا مقتدر حلقوں کیساتھ میل ملاپ بھی بڑھنے لگا۔ اس دوران اپوزیشن کے خلاف برسرپیکار وفاقی حکومت کی کارگردگی بھی ہر گزرتے دن کیساتھ بگڑتی رہی۔ وزراء نے وہ کارنامے سرانجام دینا شروع کیے جن کی مثال ملکی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی شاید نہ ملے۔گندم‘ادویات‘کھاد‘گیس‘پیٹرولیم مصنوعات‘رنگ روڈ سمیت کئی اسکینڈلز نے جنم لیا ۔ وزیراعظم نے نوٹس لینا کا سلسلہ بھی پورے جوش وجذبے کیساتھ جاری رکھا ۔ وزیراعظم کے حکم پر تحقیقات بھی شروع ہوئیں مگر پھر وہی ہوا ۔ وزیراعظم تحقیقات کے بعد اپوزیشن کو فکس کرنے میں مصروف ہوجاتے یا پھر اسیکنڈل میں کوئی وزیر ملوث پایا جاتا۔ یوں وزیراعظم حقائق پر مٹی ڈال کے آگے بڑھتے رہے۔ اہم وزارتوں میں کاریگرقومی خزانے اور ملکی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کارروائیاں زور وشور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔کسی وزارت کو پاکستان میں گاڑیوں کی تیاری کیلئے لائسنس جاری کرنے سے روک کر جاپانی گاڑیوں کی راہ ہموار رکھی جارہی ہے توکہیں پاکستان کیساتھ ہاتھ کرنے والی کمپنیوں کواونے پونے دام پر ملک سے جانے کی اجازت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ وزارت توانائی معاہدے کے باوجود پاکستان کو موسم سرما میں ایل این جی کارگو فراہم نہ کرنے والی کمپنی پر نوازشات میں مصروف عمل ہے۔ وزارت توانائی نے ای این آئی پاکستان لمیٹڈ کے اثاثوں کی ایک نئی کمپنی PIOGCL کو 16 ملین امریکی ڈالر کی انتہائی کم قیمت پر منتقلی کی تیاری کرلی ہے۔وزارت توانائی نے ای این آئی پاکستان کے اثاثوں کی مالیت کی ضروری جانچ پڑتال کو یقینی بنائے بغیر یہ کمپنی منتقلی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ای این آئی کے اثاثوں کی مالیت 90سے110ملین امریکی ڈالر کے درمیان بنتی ہے مگر ٹیکس سے بچنے کیلئے متعلقہ حکام کی آنکھوں میں دھول جھونک دی گئی ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ ایک ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کے اثاثوں کی منتقلی جس کی گیس کی پیداوار 85 ملین مکعب فٹ اور خام تیل کی پیداوار 107 بیرل یومیہ ہے اس کمپنی کو ایک ناتجربہ کار کمپنی (PIOGCL) کو 16 ملین ڈالر کے عوض اونے پونے دام پر فروخت کرنے کی حوصلہ افزائی حیران کن ہے مگر وفاقی وزیر پیٹرولیم ،سیکرٹری پیٹرولیم اور ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کنسیشن سمیت تمام حکام نے چُپ سادھ رکھی ہے۔ وزیراعظم کو کامل یقین تھا کہ اپوزیشن کو ہر روز آڑے ہاتھوں لینے میں ہی انکی حکومت کو دوام حاصل رہے گا جبکہ عوام کے مسائل اور معیشت کی زبوں حالی سے آئندہ ٹرم میں نمٹ لیں گے۔ اپوزیشن نے حکومتی پالیسیوں پر عوامی رد عمل بھانپتے ہوئے بالاخر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے کمر کس لی۔ کپتان اور انکے کھلاڑیوں پراعتماد تھے کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کو شوق بھی پورا کرلے مگر’’ ہوناتے کجھ وی نئیں‘‘۔کپتان کو یہ بات نہ جانے کسی نے کیوں نہ سمجھائی کہ آئی سی سی آپ کے خلا ف اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتی جب تک پی سی بی آپکے ساتھ ہے ۔ اگر پی سی بی نے ہی آپکا ساتھ چھوڑ دیا تو پھر آپ آئی سی سی کے وار سے نہیں بچ سکتے۔ایسی ہی صورتحال میں وقت اور حالات کا بے رحم دھاراہمیشہ نئی تاریخ رقم کرتا رہا ہے۔پھرچشم فلک نے دیکھا کہ سات مارچ کی صبح اچانک ایک خبر ٹی وی اسکرین کی زینت بنی۔ خبر کے بریک ہوتے ہوئے ملکی سیاست میں بھونچال آگیا۔علیم خان نے ترین گروپ جوائن کرلیا۔ علیم خان کی جانب سے ترین گروپ میں شمولیت اور میڈیا سے گفتگو نے اقتدار کے ایوانوں میں لرزا طاری کردیا۔اگلے ہی روز اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کرواکرکاؤنٹ ڈاون شروع کروادیا ہے۔ پُراعتماد کپتان کا دعوی ہے کہ اس وقت مائنڈ گیم چل رہی ہے اور میں مائنڈ گیم کا ماسٹر ہوں۔کاش اس مائنڈگیم کی گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں حکومتی پالیسیوں اور فیصلہ سازی میں بھی افادیت کی کوئی ایک جھلک دکھائی دیتی تو آج قوم بھی پُراعتماد ہوتی کہ آپ واقعی ماسٹر آف مائنڈ گیم ہیں۔

بشکریہ  92 نیوز

بشکریہ ایکسپرس