96

یوکرائن: یورپ کا افغانستان

جنوری 1961ء میں امریکی صدر آئزن ہاورنے اپنے الوداعی خطاب میں امریکیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ایک بہت بڑی پوشیدہ قوت بن کر ابھر رہی ہے۔امریکی قوم کو اس کے سنگین مضمرات کو سمجھنا چاہیے۔آئزن کی تنبیہ کو امریکی قوم سمجھنے میں ناکام رہی یہی وجہ ہے کہ 50سال سے امریکہ ایک کے بعد دوسری جنگ کی وجہ بنتا آ رہا ہے۔ سابق امریکی صدر کی سوچ کی تائید سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری )کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق سرد جنگ کے دوران دنیا کے ممالک کل جی ڈی پی کا 4 فیصد دفاع پر خرچ کر رہے تھے جس میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کمی آنا شروع ہوئی تھی۔ جس کی بڑی وجہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یورپ کا اپنے دفاعی اخراجات میں کمی کرنا تھی۔اگر دنیا میں یونہی امن رہتا تو امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا دھندا تباہ ہو جاتا جو امریکہ کی اس پوشیدہ طاقت کو کسی صورت قبول نہ تھا۔ پہلے ایران عراق جنگ، کویت پر عراق کا حملہ اور دنیا کے مختلف خطوں میں جنگ کو ہوا دے کر اسلحہ فروخت کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر اس سے کام بنتا نظر نہ آیا تو امریکہ نے 2001 ء میںافغانستان اور 2003ء میں عراق پر جنگیں مسلط کیں ۔ عراق اور افغانستان کی مہمات میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اہداف حاصل نہ کر سکا پھر مشرق وسطیٰ کو شام اور یمن ، قطر کو سعودی عرب کے خطرے کا احساس دلا کر اسلحہ فروخت کیا گیا۔یہ مشرق وسطیٰ میں عدم احساس اور خوف کی فضا بنانے کا ہی کمال تھا کہ سپری کی رپورٹ کے مطابق 2004ء میں دنیا میں صرف 30بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت ہوا تھا مگر مشرق وسطیٰ میں امریکی جنگوں کے بعد سعودی عرب دنیا کا سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بن گیا جس کی ہتھیاروں کی درآمد میں 61فیصد اضافہ ہوا جبکہ قطر کی ہتھیاروں کی درآمد میں 361 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔سپری ہی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے برعکس یورپ میں اسلحہ کی خریداری کم ہوئی مشرق وسطیٰ کے ممالک نے جتنا بھی اسلحہ خریدا اس میں امریکہ کا حصہ 37فیصد تھا مشرق وسطیٰ کے ممالک سلامتی کے لئے اسلحہ خریدنے پر مجبورہوئے تو ان ممالک نے امریکہ کے علاوہ چین اور روس سے بھی اسلحہ کی خریداری کے معاہدے شروع کر دیے ،ترکی نے امریکہ کے بجائے ایس 400ڈیفنس سسٹم خریدنے کے لئے روس کا انتخاب کیا ،سعودی عرب اور قطر نے بھی روس کے اسلحہ میں دلچسپی لینا شروع کی،جو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو قبول نہ تھی۔ چین اور روس پر معاشی پابندیاں لگنا شروع ہوئیں۔ بھارت نے امریکی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے روس سے 5ایس 400ڈیفنس سسٹم خریدے۔سعودی عرب قطر ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک نے امریکی دبائو کو نظرانداز کرنا شروع کیا تو امریکی پوشیدہ قوت نے نئی منڈی کی تلاش شروع کر دی۔ پوشیدہ قوت بقول قابل اجمیری جان گئی: رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں دنیا میں مکمل انقلاب کے لئے مختلف ممالک کو مختلف خطوں میں نئے خطرات کا احساس دلایا گیا 2020ء کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے بھارت کو چین کے خوف میں مبتلا کر کے کواڈر تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔یورپ جو سرد جنگ کے بعد امریکہ سے اسلحہ خریدنے کے بجائے دنیا کے دیگر خطوں کو امریکی اشتراک سے بننے والا اسلحہ فروخت کے لئے اپنا حصہ کھرا کر رہا تھا۔ مگر یورپ پر امریکہ عسکری لحاظ سے گرفت کمزور ہو رہی تھی۔ سونے پہ سہاگہ یورپی یونین کی صورت میں امریکہ سے بالا بالا معاشی نظام بھی ترتیب دیا جا رہا تھا اس لئے پوشیدہ طاقت نے یورپ پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے یوکرائن کو میدان جنگ بنانے کا فیصلہ کیا۔یوکرائن کے عوام کی ذہن سازی کی گئی۔ زیلنسکی اور یوکرائن کے عوام کو نیٹو اور یورپی یونین میں شمولیت کا لالی پاپ دے کر روس کے مدمقابل کھڑا کیا گیا۔ یوکرائن نے امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کے ایما پر روس کو آنکھیں دکھانا شروع کیں یوکرائن میں بائیو لیبز قائم کر کے روس کو یوکرائن پر حملہ کر نے پر مجبور کر دیا گیا۔ امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس نے یوکرائن تنازع کی آڑ میں ایک تیر سے تین شکار کرنے کئے۔ پہلا شکار یوکرائن پر حملے کو جواز بنا کر روس کو عالمی مالیاتی نظام سے خارج کرنا تاکہ دنیا میں روس کا جو اسلحہ خریدنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اس کے آگے بند باندھا جا سکے۔ دوسرے چین کو روس کے ساتھ نتھی کر کے چین کے خلاف روس کی طرح عالمی معاشی پابندیاں لگانے کی راہ ہموار کرنا۔ تیسرا اور سب سے بڑا ہدف یورپ کو روس کے خطرے کے احساس میں مبتلا کر کے اسلحے کی نئی منڈی پیدا کی گئی۔ یوکرائن پر روس کے حملے کے بعد نہ صرف نیٹو اتحاد سرد جنگ کی طرح ایک بار پھر مضبوط ہوا ہے بلکہ یورپ امریکہ سے دھڑا دھڑ اسلحہ بھی خریدنے پر بھی مجبور ہو چکا ہے 2020-21ء میں جرمنی کا دفاعی بجٹ 47بلین یورو تھا مگر یوکرائن پر حملے کے بعد جرمنی نے ملٹری انوسٹمنٹ 100بلین یورو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق نیٹو کے اتحادی ممالک یوکرائن کو 17ہزار ٹینک شکن میزائل اور دو ہزار سٹنگر میزائل فراہم کر چکے ہیں۔ امریکہ نے یوکرائن کو 10ارب ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوکرائن جنگ میں امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کی اربوں ڈالر کی امداد سے امریکہ کو کیا فائدہ ہو گا اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو یوکرائن کو جتنی بھی امداد کریں گے یہ قرض ہو گا دوسرے یہ اربوں ڈالر کی امداد اسلحہ کی صورت میں ہو گی جو امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس تیار کرے گا اس جنگ کے خوف سے دنیا جو اسلحہ خریدے گی اس کا 70فیصد حصہ امریکی کمپنیاں فروخت کریں گی سیپری نے دنیا میں اسلحہ بنانے والی جن 15 بڑی کمپنیوں کی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں 8 امریکی ہیں اس طرح جو ڈالر دنیا بھر سے امداد کے نام پر یوکرائن کو دیے جائیں گے وہ کاغذوں میں گھوم گھما کر امریکہ منتقل ہو جائیں گے۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلحہ کی فروخت سے پیسہ تو امریکی کمپنیاں بنا رہی ہیں ایسی پالیسی امریکی حکومت کیوں بناتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ نے جب عراق پر حملہ کیا تو ڈک چینی کی کمپنی ہیلیبرٹن کو 7ارب ڈالر کا کنٹریکٹ دیا گیا اور اس بڈ میں کسی بھی دوسری کمپنی کو شامل ہونے کی اجازت بھی نہ تھی۔ ایسا ہی معاملہ امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا ہے۔ یہ بلینز ڈالر کی انڈسٹری نہ صرف دنیا میں امن اور جنگ کے فیصلے کرتی ہے بلکہ امریکی حکومتوں کے فیصلے بھی ان کے ہی زیر اثر ہیں۔ امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس افغانستان عراق شام یمن کی جنگوں کے نتیجے مشرق وسطیٰ میں اسلحہ کے آرڈر بٹورنے کے بعد اب یورپ کا رخ کر چکی اور یوکرائن کو یورپ کا افغانستان بنانے کا فیصلہ ہو چکا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ خوف کا یہ کاروبار کب تک جاری رہتا ہے یا پھر یونی پولر سے ملٹی پولر میں بدلتی دنیا اسلحہ کی فروخت سے تباہی خریدنے کے بجائے عالمی وسائل کے باہمی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کی تبدیلی بھی لا پاتی ہے؟؟ اقوام عالم کو مشترکہ ترقی و خوشحالی کے لئے دوست دشمن میں تمیز کرنا ہو گی جو آسان نہیں بقول شاعر دوست بن کر جو ساتھ رہتا ہو ایسے دشمن کو کون سمجھے گا

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز