بات بلاول بھٹو اور احسن اقبال کی !

ایک تیکھی بات جو آج بہرحال سپردِ قلم کرنے کا ارادہ نہیں ہے کہ ، عمرانی سرکار کا مسئلہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والا تھا اور حالیہ شریف سرکار کا المیہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی والا ہے۔ بہرحال، متذکرہ نوجوان قیادت اور منجھے ہوئے سیاستدان کم ٹیکنوکریٹ کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے ایک آسان سی پہیلی کو مشکل لفاظی کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کرلیں تاکہ گلشن کا کاروبارچلے :

پہیلی:سبسڈی وہ اصطلاح جس کا مطلب امداد ہے۔ یہ امداد ڈائریکٹ بھی ہو سکتی ہے اور ان ڈائریکٹ بھی۔ حالیہ حکومت نے مخصوص طبقہ کیلئے جو 2ہزار روپے ماہانہ کا اعلان کیا ہے یہ ڈائریکٹ امداد یا ڈائریکٹ سبسڈی ہے۔ عمران خان نے بھی بڑھتی مہنگائی کی خاطر 3نومبر 2021کو غریبوں کیلئے راشن پروگرام کے تحت 1ہزار روپے ماہانہ دینے کا کہا تھا۔ عمران خان نے اپنے آخری دنوں میں تیل کی قیمت نہ بڑھانے پر آئی ایم ایف سے کئے گئے اپنے معاہدہ 2019کو سبوتاژ کیا کہ عوام سے سیاسی ہمدردیاں سمیٹی جائیں لیکن اس بات پر آئی ایم ایف ایساسیخ پا ہوا کہ اس کا غصہ ابھی تک نہیں اتر رہا۔ آئی ایم ایف کا بڑا موقف یہ تھا کہ، ایک ملک ہم سے امداد مانگتا ہے، بین الاقوامی برادری سے قرض لیتا ہے، دشمن داریاں دھڑلے سے نبھاتا ہے لیکن اپنے گھر کی ترتیب و پیشکش درست نہیں کرتا ، گر وہ اپنا گھریلو بجٹ درست نہیں کر پائے گا تو قرض کی واپسی اور امداد سے فائدہ کیسے اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان بھی درست تھا کہ ایکسپورٹ ہے نہیں، معیشت بیمار ہے، گروتھ معیار اور تسلسل نہیں رکھتی سو پاکستانیوں کو دیں کیا ۔ لہٰذا باہر سے لینے والے تیل پر دل کھول کر عوام کو سبسڈی مہیا تھی ، کہ تیل مہنگا کیا گیا تو ہر چیز ازخود مہنگی ہوجائے گی۔ پھر بجلی پر سبسڈی (امداد) بھی پلے سے تھی۔ آئی ایم ایف کا کہنا تھا ، آپ ایک ترقی پذیر کیٹگری ملک ہو ترقی یافتہ تو ہو نہیں۔ مطلب یہ کہ ”پلے نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ “ ! مگر، عوام کو بھڑکانے اور اشتعال دلانے میں شاید ہم سے زیادہ کاریگر کوئی نہیں، ہمارے عام مقررین، صحافی اور سیاسی و مذہبی رہنما بھڑکانے میں "قابلِ ستائش" ماہر ہیں۔ دلیل کو بالائے طاق رکھنے کے بعدسبھی پھر سے دلیل اٹھانا اکثر بھول جاتے ہیں، بھلے اس کی جتنی بھی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مذہبی جنون سے نکلتے ہیں تو سیاسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں ، سیاسی جنون سے نکل نہیں پاتے کہ اقتصادی بھنور ہمیں لے ڈوبتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے کہ ہمارے تمام قسم کے رہنما اپنی نمبرداری کی خاطر عوام کو حقوق دینے کے بجائے بھڑکانے کے عمل کو پورے خشوع و خضوع سے سرانجام دیتے ہیں۔ وفاقی وزرا اور قومی رہنماؤں کا تعلق محض ان کی ذاتی پارٹی سے نہیں ہوتا، قوم سے ہوتا ہے، اور نہ تعلق محض انتخابی حلقہ سے ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر اگر اسٹیٹس مین نہیں تو وہ بھی کوڑھ کی کاشت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اپنے حلقہ انتخاب کو ضرور راضی رکھیں مگر قوم ناراض کرنے کی قیمت پر نہیں! قوم کو راضی ضرور رکھیں مگر بین الاقوامی برادری اور سعودیہ و ملائشیا و چائنہ جیسے خاص دوستوں اور امریکہ جیسے عالمی نمبردار دوست کو ناراض کرکے نہیں، سلامت بی بی کی طرح شریکے چلانے کی طمطراقی بھی رکھئے مگر تدبر اور حکمت سے۔

ہم عوام نے تو کل عمران خان اینڈ کمپنی سے بھی بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں جھولیاں بھر کے ووٹ اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دیں مگر وہ اسی بات پر خوش اور مطمئن کہ ان سے قبل سب حکومتوں کا تحریک انصاف نے 80 فیصد نہیں 76 فیصد قرض لیا ہے، یعنی جتنا پچھلے چھ سات عشروں میں لیا گیا اس کا 76 فیصد پونے چار سال میں! یو ٹرن یا جہاں جھوٹ پکڑا گیا تو کہہ دیا سیاسی ہتھکنڈا تھا۔ یہی کل کے جیالے، نرالے اور متوالے کرتے رہے ہیں۔

مگر، احسن اقبال صاحب! آپ "چائے کی پیالی" میں طوفان اٹھانے کیلئے ہرگز نہیں۔ ہمیں یقین ہے آپ کرپٹ نہیں، لیکن اصلاحات اور منصوبہ بندی کی جو ذمہ داری آپ پر پھر آئی ہے یہ رب کا احسان بھی ہے اور امتحان بھی،سی پیک سے ایچ ای سی تک، سی ڈی اے سے گوادر تک، موٹر ویز و نیشنل ہائی ویز سے نیلم و جہلم و تربیلا پروجیکٹس ،غلطیاں آپ نے سدھارنی ہیں علاوہ بریں دیکھنا یہ بھی ہے اورنج لائن اور میٹرو جیسی سبسڈی کے ہم متحمل ہیں۔ گر آپ بھی اصلاحات اور منصوبہ بندی نہ دے پائے تو پھر کون؟

بلاول بھٹو نے بطورِ وزیرِ خارجہ طوفانی دورے کئے تاحال ثمرات کا رویت ہلال کمیٹی چاند ہی ڈھونڈے ہے، عید بعد کا مسئلہ ہے تاہم امریکی وزارتِ خارجہ نے کھل کر کہا ہے کہ بلاول کے ساتھ تعمیری اور حقیقی باتیں ہوئیں جو پاکستان کے ساتھ بڑی دیر بعد ہوئیں۔ یقیناً ایسا ہی ہوا ہوگا، بلاول بھٹو ایک خالص اسٹیٹس مین ثابت ہوا، اس نے امریکی میڈیا میں ثابت بھی کیا، یہ کہہ کر حیران کیا کہ عمران خان کا روسی دورہ ملکی حکمت عملی تھا یعنی عمران خان کی طرح باہر جاکر سیاسی مخالفین پر تنقید نہیں کی۔ لیکن سوال یہ کہ امریکہ کی یہ تعریف ایرانی دورے کے بعد سامنے آئی۔ مطلب یہ بلاول کا ایرانی دورہ ہضم ہوگیا؟ اگر ہضم ہوتا ہے تو جہاں زرداری گیس لائن منصوبہ رکا ہے وہاں سے شروع ہوسکتا ہے؟ توانائی میں ریلیف، سی پیک پھر سے پراپر تو سب اوکے ورنہ سری لنکا ،لیکن بلاول بھٹو اور احسن اقبال کہیں ون آن ون بیٹھ کر سوچیں جیسے ارجنٹائن کی 1998 تا 2002 تک میں حکمت عملی سے دوبارہ اٹھان ہوگئی تھی ہم بھی اٹھیں۔ دونوں کریڈیبل ہیں سو چیلنجز کا سامنا کریں! جس دن پاکستانی دانشور اور قیادت نے تاریخ اور اقتصادیات کا سچ بولنا شروع کردیا اگلے روز سے پاکستان عالمی برادری کا اہم سچ بن کراٹھے گا!

بشکریہ روزنامہ آج