180

آڈیو لیک اور ہماری سیاست

 

خوشیاں منائیں، ناچیں، گائیں اور بغلیں بجائیں کہ جس کے ہم غلام ہیں انہوں نے یعنی آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کو قرض جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، خود داری کا کوئی چانس نہیں۔ ہر دور حکومت میں یہی ہوا ہے جب بھی آئی ایم ایف نے ہمارے گلے میں قرض کی رسی کو مزید مضبوطی سے کھینچا ہے، ہم نے جشن ہی منائے ہیں، جشن منانے والے حکمران جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پوری قوم کو آئی ایم ایف کی غلامی کا طعنہ دیتے ہیں لیکن حکومت میں آکر ساری توانائیاں آئی ایم ایف کی شرائط ماننے اور قوم کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کے لئے صرف کرتے نظر آتے ہیں۔ تازہ "خوش خبری" وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سنائی ہے کہ آئی ایم ایف کے بورڈ نے قرض بحالی پروگرام کی منظوری دے دی ہے  ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ الحمداللہ آئی ایم ایف کے بورڈ نے ہمارے توسیعی فنڈ سہولت یعنی ای ایف ایف پروگرام کی بحالی کی منظوری دے دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اب عالمی مالیاتی ادارے سے ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی ساتویں اور آٹھویں قسط ملنی چاہیے۔ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ میں وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے متعدد سخت فیصلے کئے اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ہر شخص چاہتا تھا کہ یہ پروگرام منظور ہو لیکن خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا اور سابق وزیر خزانہ شوکت ترین دوسری طرف کھڑے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو پروگرام میں نے کیا ہے اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو بتائیے، مفتاح اسماعیل نے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی وزرائے خزانہ پنجاب و خیبرپختونخوا کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیک پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ بات طے ہوگئی کہ صرف 2 دن پہلے خط آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کرنے کے لئے لکھا گیا اور مجھے بھیجنے سے پہلے آئی ایم ایف کو بھیج دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس آئی ایم ایف پروگرام کے ہونے سے قبل جو گری ہوئی حرکت پی ٹی آئی نے کی ہے جس کے آرکیٹیکٹ شوکت ترین ہیں، جنہوں نے عمران خان سے پوچھنے کے بعد پنجاب میں محسن لغاری اور خیبر پختونخوا میں تیمور جھگڑا کو فون کیا اور اب اسد عمر اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس سب میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان بھی شامل تھے، جن میں سے صرف ایک محسن لغاری نے پوچھا کہ کیا ریاست کو اس سے نقصان تو نہیں ہوگا؟ باقی کسی نے نہیں ہوچھا بلکہ تیمور جھگڑا نے کہا کہ میں آئی ایم ایف کے نمبر 2 کو جانتا ہوں، میں اس کو معلومات دے دوں گا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ کیا میرے اکیلے کا پاکستان ہے کیا تمہارا پاکستان نہیں ڈوبے گا اس بحران میں؟ کیا شہباز شریف سندھ اور بلوچستان میں اگر پیسے دیں گے تو خیبر پختونخوا میں نہیں دیں گے؟ یا روز این ڈی ایم اے خیبر پختونخوا میں امدادی کارروائیاں نہیں کر رہی؟ کیا خیبر پختونخوا کے لوگ ہمارے لوگ نہیں ہیں؟ 'انہیں استعفے دینے، معافی مانگنی چاہیے' وفاقی وزیر نے کہا کہ آپ نے 2 گھنٹے پہلے جمعہ کو خط لکھا کہ خیبر پختونخوا کے بجٹ میں پیسے کم دیے ہیں جبکہ پتا ہے کہ اس پر کام پیر کو ہوگا تاکہ مفتاح کے ہاتھ بندھے ہوں، اور مجھے تو بعد میں فوٹو کاپی بھیجی ہوگی، مجھ سے پہلے ہی آئی ایم ایف کو بھیج دی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک گھنٹے بعد چیک کرا لیا تھا آئی ایم ایف کے لوگوں کے پاس وہ خط موجود تھا۔آڈیو لیک کا پس منظر یہ ہے کہ شوکت ترین کی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے خزانہ سے ٹیلی فونک بات چیت منظر عام پر آئی ہے جس میں انہیں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ گفتگو کے دوران سابق وزیر خزانہ شوکت ترین خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا سے سوال کیا کہ کیا انہوں نے خط لکھ لیا؟ جس پر وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی بناتا ہوں۔ شوکت ترین نے ان سے کہا کہ اس کے بیچ سب بڑا پہلا پوائنٹ بنا لینا جو سیلاب آئے ہیں جس نے پورے خیبر پختونخوا کا بیڑا غرق کردیا ہے تو ہمیں اس کی بحالی کے لیے بہت پیسے چاہئیں، میں نے محسن لغاری کو بھی کہہ دیا ہے اس نے بھی یہی کہا ہے کہ ہمیں بہت پیسے خرچ کرنے پڑیں گے۔ تیمور جھگڑا کہتے ہیں کہ یہ بلیک میلنگ کا طریقہ ہے، پیسے تو کسی نے ویسے بھی نہیں چھوڑنے، میں نے تو نہیں چھوڑنے، مجھے نہیں پتا کہ لغاری نے چھوڑنے ہیں یا نہیں۔ شوکت ترین نے کہا کہ آج یہ خط لکھ کر آئی ایم ایف کو کاپی بھیج دیں گے جس پر تیمور جھگڑا کہتے ہیں کہ میں پاکستان میں آئی ایم ایف کے دوسرے بڑے عہدیدار کو بھی جانتا ہوں، مجھے محسن نے بھی فون کیا تھا، میں نے ان سے بھی بات کی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ کل خان صاحب اور محمود خان دونوں نے مجھے کہا تھا کہ جیسا کل کے اجلاس میں بات ہوئی تھی کہ ہمیں مل کر پریس کانفرنس کرنی چاہئے لیکن نہیں پتا کہ وہ کب اور کیسے کرنی ہے۔ شوکت ترین جواب دیتے ہیں کہ وہ پریس کانفرنس نہیں ہونی، ہم پیر کو سیمینار کریں گے، ہم تینوں بیٹھ کر اس پر پریس کانفرنس بھی کر سکتے ہیں جس پر تیمور جھگڑا کہتے ہیں کہ پہلے خط لکھتے ہیں۔ وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کو 750 ارب کمٹمنٹ ہے اس پر آپ سب نے دستخط کیے ہیں، آپ نے یہ کہہ دینا ہے کہ جناب والا ہم نے جو کمٹنٹ دی تھی وہ سیلاب سے پہلے تھی، اب ہمیں سیلاب پر بہت پیسے خرچ کرنا پڑیں گے تو ہم ابھی سے آپ کو بتا رہے ہیں کہ ہم اس کمٹمنٹ کو پورا نہیں کر سکیں گے، یہی لکھنا ہے آپ نے اور کچھ نہیں کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان پر دباؤ پڑے، یہ ہم پر دہشت گردی کے مقدمات لگا رہے ہیں اور یہ بالکل اسپاٹ فری جارہے ہیں، یہ ہم نے نہیں ہونے دینا، تیمور بھی ابھی ایک گھنٹے میں بھیج رہا ہے مجھے، آپ بھی مجھے بھیج دیں، اس کے بعد ہم اسے وفاقی حکومت کو بھیج کر آئی ایم ایف کے نمائندوں کو بھی ریلیز کردیں گے۔ اس پر محسن لغاری سوال کرتے ہیں کہ اس سے ریاست کو تو نقصان نہیں ہوگا، اس کی وجہ سے کہیں پاکستان کو بطور ریاست مشکلات سے تو نہیں گزرنا ہوگا، جس طرح کا رویہ انہوں نے چیئرمین سے رکھا ہوا ہے، ریاست پہلے ہی کافی کچھ جھیل رہی ہے۔ ادھر پی ٹی آئی  کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی لیک آڈیو کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوکت ترین کا محسن لغاری اور تیمور سلیم جھگڑا سے فون پر رابطہ کرنا اور مشورہ دینے میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ تیمور جھگڑا نے مفتاح اسمٰعیل کو لکھے گئے خط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے خط 26 اگست کو لکھا تھا جس کا پس منظر یہ تھا کہ فاٹا کے الحاق کے بعد وہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے وعدے کئے گئے تھے، وعدہ کیا گیا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصد فاٹا کی ترقی کے لئے دیا جائے گا۔ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ ماضی میں وزرائے خزانہ فاٹا کی ترقی کے لئے فنڈز جاری کرتے رہے ہیں، میں نے موجودہ وزیر اعظم سے پوری کابینہ کے سامنے یہ تمام باتیں رکھیں، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ یہ نکات اپنی بجٹ تقریر میں رکھیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ تیمور جھگڑا نے کہا کہ جب آئی ایم ایف معاہدے کا وقت آیا تو ہم نے کہا کہ اگر آپ سرپلس چاہتے ہیں تو ہمارے ساتھ بیٹھیں، 5 جولائی کو ملاقات کا وقت دیا گیا، اس سے قبل ملاقات کے لئے 50 روز تک وقت نہیں دیا گیا، کہا گیا کہ سیکریٹری خزانہ حج پر گئے ہوئے ہیں، پھر کہا گیا کہ ان کی کمر میں درد ہے، پاکستان کے عوام، فاٹا کے لوگوں کے حقوق کی آواز اٹھانے پر ہماری حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے فاٹا پر پیسے لگائے، فاٹا پاکستان کا حصہ ہے، عمران خان نے وہاں کی بہتری کے لئے پیسے خرچ کئے، عمران خان نے قبائلی اضلاع کا بجٹ 4 ارب سے 120 ارب روپے تک بڑھایا، انہوں نے ہر سال بجٹ بڑھایا، ہماری حکومت فاٹا کے بجٹ پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ میں نے خط خود لکھا ہے، میں اس کی ذمے داری لیتا ہوں، اس میں لکھا ہے کہ قبائلی اضلاع کے بجٹ کا ایشو حل کرنا چاہئے، این ایف سی اجلاس بلانا چاہئے جس میں یہ فیصلے کئے جائیں، ہمارا خسارہ پہلے سے ہے اور جب سیلاب آگیا ہے تو ہم سرپلس کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ خط میں جان بوجھ کر یہ نہیں لکھا گیا کہ ہم آئی ایم ایف سے کئے گئے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، خط اس لئے لکھا کہ کیوں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں تھا۔ یہ پوری کہانی میڈیا میں چھپ بھی چکی ہے اور نشر بھی ہوچکی ہے، آپ سب ایک بار پھر ناچیں، خوشیاں منائیں، بغلیں بجائیں، سیلاب متاثرین کو بھول جائیں، وہ تو بحال ہو ہی جائیں گے، ہماری سیاست سلامت رہنی چاہئے۔

بشکریہ اردو کالمز