افسانہ ۔۔ نیند

ایک اچھے عہدے پر فائض رہنے کے بعد وہ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوا تھا ۔ اچھی خاصی زمین و جایداد اور مال و دولت بھی جمع کیا تھا ۔ ایک عالیشان مکان بھی کچھ سال پہلے ہی بنایا تھا جس میں وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ زندگی کے لمحات گزار رہا تھا ۔ اس کے اپنے دو بچے بھی برسر روزگار تھے ۔ مکان میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ انسان کسی بڑے محل میں قدم رکھ چکا ہے ۔ مکان کو خوب سے خوب تر بنانے میں اس نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ بہترین فرش و فروش اور جدید ڈیزائن کے پردوں کے علاوہ نت نئے بجلی بلب مکان کی خوبصورتی میں چار چاند لگارہے تھے ۔ اپنی خوابگاہ کو بھی اس نے سجایا اور سنوارا تھا ۔ اس کے پاس کسی چیز کی کوئی کمی نہیں تھی۔ نرم و ملایم بستر پر کس کو نیند نہیں آتی ہے مگر وہ رات بھر کروٹیں ہی بدلتا رہتا تھا ۔ وہ خود بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر نیند کی دیوی اسے کیوں روٹھ گئی تھی ۔ ڑاکٹروں اور حکیموں کے چکر بھی خوب لگائے مگر حالت جوں کی توں رہی اور رات کے دوران آنکھیں بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔۔۔۔۔

دو دن بعد کسی اہم فائل کو دستخط کروانے کی غرض سے وہ سرینگر جارہا تھا تو پانتہ چوک کے قریب پہنچ کر اس کی گاڑی شدید ٹریفک جام میں پھس گئی ۔ ٹریفک برابر ایک گھنٹے تک معطل رہا اسی دوران وہ اپنی قضائے حاجت پوری کرنے کی غرض سے گاڈی سے باہر آیا ۔ جب اس کی نظر نۓ تعمیر ہورہے فلای اور کے نیچے پڑ گئی تو وہ ایک عجیب منظر دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ دیکھتا کیا ہے کہ فلای اور کے نیچے بنگال اور راجھستان سے آۓ ہوئے سینکڑوں افراد کی ٹولی کھلے آسمان تلے معمولی خیموں میں خوشی خوشی چاے کی چسکیاں لیتے ہوئے انتہائی پرمسرت دکھ رہے ہیں ۔ اس نے ان کی جانب قدم بڑھائے اور ان سے بات کرنے کی چاہت محسوس کی ۔۔۔۔

کیا آپ سب لوگ یہاں ہی ان بوسیدہ خیموں میں رہتے ہو ؟

رات بھی ان ہی میں گزارتے ہو ؟

کھاتے پیتے بھی ان ہی میں ہو ؟ 

کیا آپ کو رات کے دوران ان میں نیند آتی ہے ؟

 

ان سوالات کے جوابات سن کر وہ گاڈی میں بیٹھ کر دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا ۔ سرینگر سے واپسی کے دوران بھی وہ نجانے کن گہری سوچوں میں گم ہوا تھا اور گھر شام دیر گۓ پہنچ گیا ۔‌ باورچی خانے میں اس کی اہلیہ اس کا بے صبری سے انتظار کررہی تھی۔ چاے پی کر اس نے جلدی سے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی ۔ شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ باورچی خانے میں ہی کچھ دیر آرام کرنے کے لئے بیٹھا ۔ موبائل فون پر اس نے کوئی نیا گانا لگایا اور لیٹ گیا ۔ پندرہ بیس منٹ میں ہی نیند کی دیوی نے اسے گلے لگایا اور وہ کھراٹے لینے لگا ۔‌ اس کی بیوی یہ دیکھ کر خوشی میں پھولے نہیں سمائی کہ اس کا خاوند مہینوں بعد آرام کررہا ہے ۔ اس نے اس کے اوپر کمبل ڈال دی ۔ صبح آٹھ بجے جب وہ نیند سے جاگا تب ہی اسے پتہ چلا کہ وہ اپنی خوابگاہ میں نہیں بلکہ کچن میں ہی سویا ہوا تھا ۔ اس کی بیوی یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ اچھی نیند کی کیا وجہ ہے ۔ اس نے نیند کی گولیاں تو نہیں لی تھی۔۔۔

دوسرے دن وہ دوبارہ بیرون ریاست سے آۓ ہوئے ان سینکڑوں غریب لوگوں کے پاس گیا اور انہیں ایک مہینہ کا کھانے پینے کا خرچہ دیا تاکہ وہ بھی کچھ حد تک اپنے عیال کو فاقہ آنے سے بچا سکیں ۔۔۔

 

 

ریٔس احمد کمار

قاضی گنڈ کشمیر 

بشکریہ روزنامہ آج