478

میری مرضیاں!

گزشتہ کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات عام اور مصروف شاہراوں پر رونما ھو رہے ہیں ، جن میں ھمارے معاشرے کی خواتین براہ راست قانون شکنی کی مرتکب ھو رہی ہیں،اور یہ وہ خواتین ہیں جو پڑھے لکھے باشعور اور پر اثر طبقے سے تعلق رکھتی ہیں ،جو نہ صرف سرعام قانون کو نظر انداز کر رہی ہیں بلکہ قانون کے رکھوالوں کو انکی اوقات یاد دلاتے ھوے ، ماں بہن کی زاتیات تک پہنچ کر الفاظ کا بے دریغ استعمال کر کے "ان پڑھ، جاھل، احساسات اور رشتوں سے عاری "، پولیس والوں کو اپنی علمی قابلیت اور استعداد سے بھی روشناس کرواتی ہیں۔ 
یہ اس معاشرے کی پڑھی لکھی خواتین کا رویہ ہے  جو کچھ عرصے سے ایک نئے حق سے روشناس ھوئی ہیں " میرا جسم ،میری مرضی"، ۔ سرعام قانون شکنی کرتے ھوئے اور معاشرے کے توانا وغاضب کرداروں سے الجھتے ھوئے یہ ظاہر ھو رہا ہے کہ میری مرضی کا نعرہ کافی کامیاب رہا اور اس  کا سب سے پر اثر استعمال قانون شکنی کر کے ہی کیا جارہا ہے۔ان واقعات سے یہ ثابت ھو رہا کہ اب پاکستانی خواتین مظلوم نہیں رہی ہیں، انہیں اپنا حق لینا اور مردوں کے معاشرے میں سرعام انکا گریبان پکڑنا آگیا ہے۔ یہ واقعات ان عوامل کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ " میری مرضی" کا مطلب جنگل کا قانون ہے ، جس میں برابری و مساوات اور قانون کا احترام  نہیں بلکہ طاقت، زور اور زر کا طلسم راج کرتا ہے۔ جس میں قانون کے رکھوالوں کو  عہدوں، عہدیداروں اور اداروں کا خوف دلایا جاتا ہے۔
کوئی بھی شخص یا ادارہ اس امر کا متقاضی نہیں ھوتا کہ اسکے اہلکار یا اسکی زات سے منسلک لوگ سرعام قانون توڑٰتے ھوے اپنے ساتھ اس ادارہ یا اس شخص کی عزت کا بھی جنازہ نکال دیں۔ در حقییقت یہ بیمار زہنیت، کمزور تربیت و اخلاق اور غلام معاشرے کے شخص کا کردار ھو سکتا ھے جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ھوئے اپنی زات کو اور اس سے منسلک پورے خاندان کی عزت اور معاشرتی وقارکو سر بازار تماشا بنا دے۔ھمارے معاشرتی کرداوں کو مزید کتنا عرصہ لگے گا یہ سمجھنے میں کہ عزت اور اخلاق کا تقاضا قانون کی پیروی ، عملداری و پاسداری میں ہے۔ھم نے اکثر اپنے ادگرد دیکھا ہو گا کہ جب بھی کسی شخص نے قانون سے الجھنے یا اسکی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی ھو گی تو آج کے موبائل کیمرہ فون کے دور میں منزل پر پہچنے سے پہلے اسکی شہرت پہنچ چکی ھو گی  اور اسکے بعد وہ شخص اپنے اردگرد موجود افراد کا سامنا کیسے کرتا ھو گا ،
( اس پر تخقیق کرنے کی ضرورت ہے)!۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آج کے دور کی ماؤں کا یہ کردار ہے تو ہم اپنی آہندہ نسل کو کس طرح کی تربیت دے رہے ہیں، انکے معاشرتی کردادوں کو کس طرح پروان چڑھا رہے ہیں، اگر مایہں سرعام قانون شکنی کرتی پھریں  گیں، زبان سے نازیبا الفاظ کا برسرعام اظہار کریں گیں تو اسکا اثر ھمارے بچوں پر کیا پڑے گا۔ پھر ہم ایک پڑھا لکھا معاشرہ نہیں بلکہ ایک جنگل اور اس میں رہنے کےلیے جانوروں کی پرورش کر رہے ہیں۔
مہذب معاشرے میں" میری مرضیاں" نہیں چلتیں بلکہ قانون کا احترام و پاسداری کو مقدم رکھا جاتا ہے۔

بشکریہ اردو کالمز