1604

     کیا پاکستان کا مستقبل اب مرغیوں سے بدلیں گا۔۔؟ 

اس بات پر آج تک اتفاق نہ ہو سکا کہ دنیا میں پہلے مرغی آئی یا انڈا ۔اس پر کوئی ایک رائے نہیں ۔کوئی مرغی کہتا ہے تو کوئی انڈا۔لیکن اس کے باوجود بھی انسانی زندگی میں دونوں کی بہت زیادہ اہمیت وافادیت ہے ۔مرغی ایک پرندہ ہے ۔دنیا کے تمام بڑے ممالک میں اس کا گوشت بطور صحت بخش غذا استعمال کیا جاتا ہے ۔اس میں پروٹین کی مقدار کئی گنا زیادہ جبکہ فیٹس ،کیلوریز اور کولسٹرول کی مقداربا نسبت کم ہے البتہ آئرن کی وافر مقدار موجو دہوتی ہے ۔یہ خور اک کا بھی ا ہم جزو ہے۔مرغیوں کی وسیع پیمانے پرافزائش کے لیے باقاعدہ مرغی خانے بنائے جاتے ہیںجوکہ ایک منافع بخش کاروبار ہے 
جس کو وزیراعظم پاکستان نے مدنظر رکھتے ہوئے مرغی پال سکیم کو قومی غربت مٹاو¿ پروگرام کا حصہ بنایا جس کا انھوں نے 29نومبر کو باقائدہ اعلان کیا یہ سکیم بہت سادہ ہے ۔ لاکھوں غریب خاندان اس سکیم سے مستفید ہو رہے ہیں یعنی انڈے اور گوشت فروخت کرکے اچھی خاصی آمدنی کمارہے ہیں۔اس کے لیے حکومت وقت نے اچھی پیداوار صلاحیت کی حامل مرغیوں کی تقسیم کے لیے مجوزہ منصوبہ پیش کیا ہے ۔جس کے تحت مرغیوں میں دلچسپی رکھنے والے خاندانوںمیںاس کا 1یونٹ جوکہ 5مرغیوں اور ایک مرغے پر مشتمل ہوتا ہے30% رعائتی نرخوں پر یعنی 1050روپے فی یونٹ کے حساب سے تقسیم کرنے شروع کردیے ہیں۔جسںپر پنجاب حکومت نے بھی وزیراعظم کے احکامات پر مرغی پال سکیم میں 20لاکھ مرغیاں تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار کیا محکمہ لائیوسٹاک کے پلان کے مطابق2024ءتک 20لاکھ مرغیاں تقسیم ہوجائیں گی جس میں سالانہ 3لاکھ75ہزار مرغیاں اور مرغے لوگوں میں تقسیم کیے جائے گئے جو کہ مناسب قیمت اور سبسڈی کے تحت ہونگے اور ساتھ ہی 32ہزار افراد کو مرغی پالنے کا طریقہ کار بھی سکھایا جائے گا تاکہ مرغیوںکی اچھے طریقے افزائش وپیداوار کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کماکر ذریعہ معاش میں بہتری لائی جا سکے یاد رہے کہ یہ مرغیوں کا یونٹ 3نسلوںکی مرغیوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں (1 ) گولڈن مرغی (2) دیسی مرغی (3) اصیل مرغی یہ تینوں نسل کی مرغیاں نایاب اور اعلی ترین نسلیں ہیں ۔ جن میں مصری مرغی کالے اور سفید رنگ کے مکسچر پر مشتمل ہوتی ہے اور سب سے زیادہ انڈے دینی والی مرغیوںمیں شمار ہوتی ہے ۔اس کی سالانہ اوسط 250 سے زائد انڈے دینے کی ہوتی ہے اس کا انڈا لئیر مرغی کے انڈے کی نسبت مہنگا ہوتا ہے۔ اور اس کا گوشت بھی بہت لذیز اور مزےدار ہوتا ہے ۔ دیسی مرغی یہ دیہی علاقوں میں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں ۔یہ بھی انڈے اور گوشت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انتہائی مفید ہے یہ عام طور پر گھروں میں ہی زیادہ تعداد میں پالی جاتی ہے ۔اصیل مرغی یہ بہت ہی نایاب اعلی ترین اور انتہائی قیمتی نسل ہے ۔ اس کی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے ۔ اس مرغی کا وزن چار سے پانچ کلو تک ہوتا ہے ۔ اس کا گوشت کھانے میں بہت ہی لذیز ہوتا ہے اور ہر کسی کا من پسند ہوتا ہے ۔یہ قیمتی اور مہنگی ہونے کے باوجود بھی اسکی فارمنگ پہ کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل آہستہ آہستہ بہت کم ہورہی ہے حکومت وقت کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہے تاکہ یہ نایاب نسل ختم ہونے سے بچ سکے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی مرغی پال سکیم کے تحت ڈاکٹر وقار یونس ڈپٹی ڈایکٹر لائیواسٹاک نے 100درخواست گزار خوش نصیبوں کے نام قرعہ اندازی کے ذریعے نکالے جن کو 100یونٹ مرغیوںکے دئے گئے اور اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ یہ مرغیاںمصری ،دیسی اور اصیل کراسنگ ہیں جس کی وجہ سے یہ اچھی پیداوار اور افزائش کے لئے موضوع اور بیماریوں سے پاک ہیں ۔ان کا وزن 900گرام سے زائد ہے جو کہ صرف ایک ماہ بعد انڈے دینے کے قابل ہو جائیں گی ۔ہر مرغی سالانہ 250سے زائد انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ہمارے محکمہ لائیواسٹاک نے بڑے پیمانے پر ان کی بریڈنگ شروع کر دی ہوئی ہے وزیراعظم کی غربت پر قابو پانے کے لئے یہ سکیم بہت زیادہ سود مند ثابت ہو گی۔اس منصوبے سے خصوصاً خواتین کی بہت بڑی تعداد مستفید ہورہی ہے مجھے الحمداللہ یقین ہے کہ اس سکیم سے غذائی قلت اور معاشی مشکلات پر 100% قابو پانے میں مدد ملے گی انشاءاللہ۔اس پروجیکٹ کا مقصد خاص طور پر دیہی علاقوںکی خواتین میں گھر یلو سطح پر غربت سے نمٹنے کے لئے مواقع فراہم کرنا ہے تا کہ وہ اس کی افزائش سے اچھی اور بہترین حلال آمدنی حاصل کر سکیں۔اس بارے رقم الحروف کا بھی کہنا ہے کہ دیسی مرغی کا گوشت اور انڈے ہر کسی کی من پسند غذا ہے لیکن ہر کسی کی پہنچ میں نہیں اسے کھانا کیونکہ کہ کم مقدار میں ہونے کی وجہ سے خصوصاًسردیوں میں مرغی کا گوشت اور انڈے اتنے مہنگے ہوجاتے ہیں کہ یہ غریب آدمی کا خواب ہی بن جاتا ہے ۔اس سسٹم کے ذریعے مرغی اور انڈوں کا آسان حصول گھر میں مر غیاں پالنے سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔جیسے کافی عرصہ داراز پہلے تقریباً ہر گھر میں پالی جاتی تھیں ۔کچھ لوگ انھیں حصول گوشت اور انڈے کے لئے پالتے ہیں۔تو کچھ مشغلے کے طور پر پالنا پسند کرتے ہیں لیکن یہ تو بات طے ہے کہ ہر مقصد کے لئے علیحدہ علیحدہ مرغی پالی جاتی ہے ۔یاد رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پولٹری کی جدید صنعت 1950میں قاہم ہوئی اور پاکستان میں 1963تجارتی فارمنگ کا عنوان ہواجس پر پی آئی اے قومی ائیرلائن نے ابتداسے راس المال لگایااور پہلی ہیچر ی کا یونٹ 1965ءکو کراچی میںلگایا گیا۔ اس کے بعد سرمایہ داروں،تاجرو ں۔اور صنعتکاروںکو اس کا روبار کے منافع کا جب اندازہ ہوا توہر طرف پولٹری کا ہی بزنس شروع ہوگیا۔اور بڑے بڑے فارمز بننے لگے ۔اس وقت صنعت میں350ارب سے زائد پولٹری میںسرمایہ کاری کی جارہی ہے اور پاکستان میں گوشت کی ضرورت کا 42%پولٹری کا شعبہ پوری کرتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال پچاس ارب سے زائد مرغیاں پالی جاتی ہیںجب کہ پاکستان میں ان کی تعداد ایک ارب 25کروڑکے لگ بھگ ہے ۔ انڈوں کی سالانہ پیداوار کے لحاظ سے وطن عزیز دسویںنمبر پرہے اور پاکستان میں مرغی کا استعمال سالانہ صرف 5کلو ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں 41کلواور دیگر ممالک میں 19کلو فی کس ہے اسکی بڑی وجہ کم پیداوار نہیں بلکہ غلط افوئیں اور مند گھڑک کہانیاں ہیںکہ مرغی کی خوراک میں مختلف اسٹیرائڈز،ہارمون،اور حرام چیزیں شامل کرنا ہے ۔ اس پر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ انکار اور اظہار تو بہت ہوتے رہے لیکن حاکم وقت اور متعلقہ انتظامیہ نے اس پر کوئی جامعہ کمیشن نہ بنایا اور نہ ہی اس پر کوئی توجہ دی جاتی رہی کہ آخر یہ معاملہ ہے کیاواقعہ ہی اس کے برے اثرات انسانی صحت پر پڑتے ہیں یا یہ محض مفرضے ہی ہیںیا سوشل اور الیکٹرونک میڈیااپنے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بہرحال حالات وقعات ، مواقف ، بیانیہ جو بھی ہو حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ مرغی کے گوشت سے جوڑے ہوئے تمام تر معاملات کی ازسرنو ع سے تحقیقات کرواکر حقیقت عوام کے سامنے لائے جو کہ عوام کا بنیادی حق ہے اور حکومت وقت کا فرض 
 

بشکریہ اردو کالمز