376

کس کی ماں کو ’’ماسی‘‘ کہیں

اس ہفتے کا آغاز ہوتے ہی میں نے پیٹرول کی نایابی کی بابت دہائی مچادی تھی۔وہ کالم لکھتے ہوئے میں اس امر پر بھی بہت پریشان ہوتا رہا کہ 24/7نیوز سائیکل والے قوم کو ہرلمحہ باخبر رکھنے کے دعوے دار کئی ٹی وی نیٹ ورک کے ہوتے ہوئے بھی مجھے اس مسئلہ کی جانب توجہ دلانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ مان لیتے ہیں کہ میڈیا ان دنوں اتنا آزاد اور بے باک نہیں رہا جتنا ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی حکومتوں کے دوران ہوا کرتا تھا۔ماضی کے لٹیروںکو پوری لگن سے بے نقاب کرنے کے بعد مگر اب ’’ذمہ دار‘‘ ہوگیا ہے۔ ’’سنسنی خیزی‘‘ سے گریز کرتا ہے۔ قوم میں مایوسی پھیلانے کے بجائے اچھے دنوں کی امید دلاتا ہے۔

دعویٰ مگر یہ بھی ہورہا ہے کہ ہمارے ہاں Citizen Journalismمتحرک ہوچکا ہے۔جو بات روایتی میڈیا دکھانے اور بتانے کی ہمت نہیں رکھتایوٹیوب پر چھائے حق گو نوجوانوں کی بدولت منظرِ عام پر آجاتی ہے۔قوم کو ’’سچ‘‘ بتانے والے ان یوٹیوب حق پرستوں کی تحقیق وتفتیش کا بھی میں نے بہت غور سے مشاہدہ کیا۔ان کی اکثریت بھی ہمیں یہ بتانے میں مصروف رہی کہ ’’کپتان ڈٹ گیا ہے‘‘۔ شوگر مافیا کے خلاف ہوئی تحقیقات منظرِ عام پر آگئی ہیں۔احتساب بیورو اور ایف آئی اے والوں کو اب یہ حکم ہوا ہے کہ نشان د ہ سرغنوں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز ہو۔

عمران حکومت کے انقلابی فیصلے کو سراہتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی ہوتا رہا کہ احتساب کے شکنجے کی جانب بڑھتے ’’شوگرمافیا‘‘والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ان کے بہت ہی عزیز وقریبی رشتہ دار یا دوست تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیوں میں بہت بااثر ہیں۔’’شوگرمافیا‘‘ کی زندگی اجیرن ہوئی تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ان کے عزیز وقریبی رشتہ دار اور دوست عمران حکومت کو گرانے کی سازشوں میں مصروف ہوجائیں گے۔ معاملہ بہت ہی سنگین ہوگیا تو ہر ممکن کوشش ہوگی کہ حکومت آئندہ مالیاتی سال کا بجٹ قومی اسمبلی سے منظور نہ کرواپائے۔ایسی ہی صورت حال ہمیں پنجاب میں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ان خدشات کے اظہار کے بعد یقین ہمیں یہ بھی دلایا گیا کہ ’’شوگرمافیا‘‘پر ہاتھ ڈالنے سے قبل عمران خان صاحب اس کی طاقت کے بارے میں مکمل طورپر آگاہ تھے۔وہ اس بات پر لیکن ڈٹ چکے ہیں کہ حکومت جاتی ہے تو جائے ’’شوگرمافیا‘‘ کے سرغنوں کو کسی صورت معاف نہیں کریں گے۔


’’شوگرمافیا‘‘ کے حوالے سے ڈرامائی مناظر تخلیق کرنے کے علاوہ یوٹیوب پر چھائے حق گو افراد کی اکثریت شہباز شریف صاحب کی ’’پھرتیوں‘‘ کا بھی تمسخراڑاتی رہی۔احتساب والوں سے حال ہی میں ان کی جو آنکھ مچولی ہوئی اس نے بھی خوب رونق لگائی۔ اس رونق کے باوجود ہمیں یہ طے کرنے کو مائل کیا جاتا رہا کہ 1985سے ملکی سیاست پر چھائے شریف خاندان کا قصہ اب تمام ہوا۔نوازشریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ تتربتر ہوچکی ہے۔مختلف گروہوں میں تقسیم ہوئی اس جماعت کے سرکردہ افراد کو اب سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق کس کی ماں کو ’’ماسی‘‘ کہیں۔


’’لفافہ صحافت‘‘ کے متبادل کے طورپر ابھرتے سوشل میڈیا پر لداخ کی سرزمین پر ہمارے ازلی دشمن کی چین کے ہاتھوں ہوئی درگت کے بھی بہت چرچے رہے۔ یوں محسوس ہونا شروع ہوگیا کہ لداخ میں اپنی اوقات بے نقاب ہوجانے کے بعد مودی سرکار پاکستان سے کوئی نیا پنگالینے سے قبل اب سوبار سوچے گی۔ امریکہ کی تھپکی سے وہ خود کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چارہی تھی۔دنیا کی اب تک واحد سپرطاقت شمار ہوتاامریکہ مگر کرونا کی تاب نہ لاسکا۔ اب وہاں نسلی فسادات بھی شروع ہوگئے ہیں۔اپنے زوال کی جانب تیزی سے بڑھتا امریکہ بھارت کی پشت پناہی کے قابل ہی نہیں رہا۔ ہمارے لئے لہذا ستے خیراں کا ماحول بن رہا ہے۔

شوگر مافیا اور لداخ میں چین کے ہاتھوں بھارت کی درگت کے حوالے سے جو Feel Goodکہانیاں بنی (Spin)جارہی تھیں۔ وہ قطعاََ بے بنیاد نہیں تھیں۔ انہیں مگر طویل المدتی تناظرمیں دیکھا جاسکتا ہے۔’’ صحافت‘‘ بنیادی طورپر Here and Nowکو رپورٹ کرنا ہے۔اس بنیاد پر غور کریں تو ہمارے پیٹرول پمپوں کے باہر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی طویل قطاریں اہم ترین ’’خبر‘‘ تھی۔اس ضمن میں چند بنیادی سوالات اس لئے بھی اٹھانا ضروری تھے کیونکہ کرونا کے موسم میں تیل کی قیمت عالمی منڈی میں حیران کن حد تک گر گئی تھی۔عالمی میڈیا کی بدولت بلکہ تاثر یہ بھی پھیلا کہ ذخیرہ کرنے کی سکت کھودینے کے بعد تیل کے تاجر اس گرانقدر جنس کو ’’مفت‘‘ دینے کو بھی مجبور ہورہے ہیں۔اس تاثر کی بدولت پاکستان کے عوام میں یہ خواہش بیدار ہوئی کہ تیل کے حوالے سے دنیا بھر کے صارفین کو میسر ’’خوش بختی‘‘ میں ان کا حصہ بھی یقینی بنایا جائے۔عوام کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے عمران حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں یک مشت سات روپے فی لیٹر کمی لانے کا اعلان کردیا۔حکومتی ترجمان سینہ پھلاکر ہمیں یہ بتاتے رہے کہ پاکستان میں پیٹرول جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک کے مقابلے میں سستا ترین ہوگیا ہے۔

ٹی وی سکرینوں کے ذریعے جو خوش گوار منظر کشی ہوئی وہ عملی زندگی میں لیکن نظر نہیں آئی۔مارکیٹ سے تیل اور ڈیزل غائب ہوگئے۔پیٹرول پمپوں کے باہر موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔کرونا کے دنوں میں یہ قطاریں ہسپتالوں پر مزید بوجھ کو یقینی بناتی بھی نظر آئیں۔

توانائی کے جواں سال وزیر عمر ایوب صاحب مگر کمال رعونت سے پیٹرول کی نایابی والی حقیقت کو جھٹلاتے رہے۔ 2019کے آغاز میں جب چولہے جلانے والی گیس کا بحران نمودار ہوا تو ان دنوں کے وزیر توانائی نے گیزر کو ’’عیاشی‘‘ ٹھہرایا تھا۔عمر ایوب صاحب نے عوام کو مشورہ دیا کہ پیٹرول کی مصنوعات خریدنا چھوڑدیں۔ صارفین نے چند دنوں کے لئے پیٹرول خریدنے سے انکار کردیا تو ذخیرہ اندوز ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

عمر ایوب خان کا دیا مشورہ سفاکانہ حد تک مضحکہ خیز تھا۔ کرونا کے خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھی اشرافیہ یقینا کچھ دنوں کے لئے اپنی گاڑیوں کو پیٹرول کے بغیر اپنے محل نما گھروں کے پورچ میں کھڑی کرنے کو آمادہ ہوسکتی تھی۔موٹرسائیکل مگر عام آدمی کی سواری ہے۔اس عام آدمی کے روزگار کو یقینی بنانے کے لئے عمران خان صاحب لاک ڈائون کی شدت سے مخالفت کرتے رہے۔دیہاڑی دار کی مشکلات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے تعمیراتی شعبے کو سب سے پہلے کھول دیا گیا۔یہ شعبہ کھلا تو اس کے لئے مزدور اور کاریگروں کو کسی نہ کسی ٹرانسپورٹ کی ضرورت بھی تھی۔پیٹرول پمپوں کے باہر لگی موٹرسائیکلوں کی جو قطاریں سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں انہیں غور سے دیکھیں تو آپ کو فوراَ َ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کی اکثریت ایسے نوجوانوں کی ملکیت ہے جو کرونا کے دنوں میں گھروں میں مختلف النوع اشیائے صرف ڈیلیور کرتے ہیں۔فرض کیا میں نے کسی کھانا پکانے والے کو آرڈر دیا ہے تو وہ موٹرسائیکل کے ذریعے میری طلب کا کھانا بروقت پہنچا نہیں پائے گا۔اسے میرے یا آپ کے گھرپہنچانے والا اپنے موٹرسائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے لئے لمبی قطارمیں کھڑا ہوگا۔

بدھ کی صبح اخبارات نے شہ سرخیوں کے ذریعے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ منگل کے روز ہوئے کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم صاحب نے پیٹرول کی نایابی کا شدید نوٹس لیا۔اسد عمر صاحب جیسے سینئر وزراء عمر ایوب کی کلاس لیتے رہے۔ گماں ہوتا ہے کہ تیل کی ترسیل وفروخت کے ضمن میں بھی ایک اور ’’مافیا‘‘ کا سراغ مل گیا ہے۔ایف آئی اے کو شاید اس کے خلاف بھی متحرک کرنا ہوگا۔

تیل کی ترسیل اور فروخت پر اجارے کے حامل مافیا کے سرغنوں کی نشان دہی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کیلئے اگرچہ وقت درکار ہوگا۔ذمہ داروں کے ’’کھرے‘‘ تک پہنچنے سے قبل ہم بے بس ولاچار لوگ کیا کریں؟!

تیل کی ترسیل اور فروخت سے جڑے افراد کا اصرار ہے کہ انہوں نے اپنے ذخیروں میں موجود تیل کی خریداری کے لئے عالمی منڈی سے آج سے کئی ماہ قبل رجوع کیا تھا۔انہوں نے نسبتاََ بہت زیادہ لاگت سے یہ تیل اپنے ذخیروں کے لئے حاصل کیا ہے۔حکومت نے ان کو ہمدردی سے سنے بغیر یکدم قیمت میں کمی کا اعلان کردیا۔ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ لاکھوں میں خریدے تیل کو ہزاروں میں بیچ کر اپنے اصل سرمایے سے بھی محروم ہوجائیں۔ایک ذمہ دار شخص نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ تیل کو سرکاری نرخ پر بیچنے کی وجہ سے PSOکو اب تک پانچ سے سات ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔محض منافع کے حصول کے لئے بنائی عالمی سطح پر مشہور اور انتہائی بااثر ملٹی نیشنل کمپنیاں’’خلقِ خداکی محبت میں‘‘ ایسا نقصان برداشت کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں ہوں گی۔ تیل کی عام آدمی تک فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے اوروہ یہ کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں فی الفور دس سے پندرہ روپے اضافے کا اعلان کرے۔

بشکریہ اردو کالمز