299

معیشت کا کچا چٹھا کھولنے والا بجٹ

نیا بجٹ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ یہ پوری مشق اور اعداد وشمار کا یہ گورکھ دھندا صرف اس لیے کیا گیا ہے تاکہ آئی ایم ایف کے منجمد پروگرام کو کسی طرح دھکا سٹارٹ کیا جا سکے۔sharethis sharing button

(اے ایف پی)

مرتضی سولنگی کا یہ کام آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:

کرونا کی قیامت خیزیاں،  ٹڈی دل کی تباہ کاریاں، خزاں کے پتوں کی طرح جھڑتی ہوئی معیشت، بلند ہوتا ہوا سیاسی درجۂ حرارت، موجودہ عمران سرکار اور پارلیمان کا مسلسل غیر متعلق، بے اثر، بے اختیار ہونا اور پاکستان کی گہری ریاست کا ریاست کے تمام اداروں پر بڑھتا ہوا غیر معمولی اثر رسوخ آج کے پاکستان کی بھرپور وضاحت کرتے ہیں۔

پچھلے ہفتے بھی انھی دائروں میں مزید پیش رفت ہوئی ہے۔ عمران سرکار چل کم رہی ہے اور گھسیٹ زیادہ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ گھسیٹنا کب تک ممکن ہے؟

کرونا کا پھیلاؤ پچھلے ساڑھے تین ماہ میں تباہ کن سطح تک پہنچ چکا ہے لیکن ابھی تک ہم نقطۂ عروج سے دور ہیں۔ پاکستان کے کرونا کے نقطۂ عروج تک پہنچنے میں تاخیر کی وجہ سندھ حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن سمیت کئی اقدامات ہیں جن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ اسلام آباد انتظامیہ نے بھی یہی اقدامات اٹھائے۔ ایک حد تک میڈیا اور سوشل میڈیا نے بھی لوگوں کی آگاہی میں اضافہ کیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے کرونا کے پھیلاوْ میں تیز افزائش نہیں ہوئی جو ان اقدامات کے نہ اٹھائے جانے سے زیادہ تیز رفتاری سے ہو سکتی تھی۔

لیکن عمران خان کے متضاد بیانیوں اور لاک ڈاؤن کی مسلسل اور متواتر مخالفت کے نتیجے میں ان اقدامات کو الٹی گیئر میں ڈالا گیا۔ رہی سہی کسر سپریم کورٹ نے پوری کی جب ماہ رمضان اور عید کے موقع پر پورے ملک کو کھول دیا گیا۔ بعد میں وفاقی حکومت نے بین الصوبائی اور مختلف شہروں کے اندر اور شہروں کے درمیان زمینی اور ہوائی آمد و رفت اور آخر میں بین الاقومی پروازوں کو کھول کر کرونا کی راہ میں تمام رکاوٹیں ہٹا دیں۔ اب ہم تیزی سے کرونا کے نقطہ عروج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

پچھلے ہفتے کرونا مریضوں کی تعداد نوے ہزار کے قریب تھی۔ اس ایک ہفتے میں چھتیس ہزار سے زائد نئے کرونا کیس سامنے آئے ہیں۔ کرونا کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا تھا اور پہلے 36 ہزار کے لگ بھگ کیس آنے میں 78 دن لگے تھے۔ پچھلے ہفتے یہی تعداد ایک ہفتے میں ممکن ہوئی ہے۔ پاکستان کے پہلے 100 ہلاک افراد کی تعداد تک پہنچنے میں تقریباً 50 دن لگے تھے۔ اب اس سے زیادہ افراد صرف 24 گھنٹوں میں موت کی وادی کی طرف جا رہے ہیں۔

ان خوفناک اعداد و شمار کے باوجود عالمی ادارہ صحت کی تمام سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر لاک ڈاؤن کھولا گیا اور ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور ٹریسنگ کے دعووں کے باوجود اس ضمن میں کوئی قابل ذکر کاوش سامنے نہیں آئی۔ اب ساڑھے تین ماہ کی طویل مدت کے باوجود اور تمام تر وعدوں کے باجود کہ پاکستان جلد ہی پچاس ہزار یومیہ ٹیسٹنگ کرسکے گا، ابھی تک ٹیسٹنگ مر مر کے بھی اس کے آدھے کے قریب پہنچی ہے۔ پاکستان کی یومیہ ٹیسٹنگ یہ سطریں لکھتے وقت اپنی آبادی کے ایک فیصد کے آدھے کے قریب بھی نہیں پہنچی۔ دوران تحریر تک پاکستان نے ابھی تک اپنی آبادی کے صرف 0.38 فیصد کا کرونا ٹیسٹ کیا ہے۔

کرونا کس تیزی کے ساتھ پاکستان میں پھیل رہا ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اب تک جومحدود تعداد میں ٹیسٹ بھی کیے جا رہے ہیں ان میں کرونا کے مثبت ٹیسٹ نتائج آنے والوں یعنی اس مرض میں مبتلا لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ عید تک مثبت نتائج آنے والوں کی تعداد 16 فیصد تھی، عید کے فوراً بعد یہ فیصد بڑھ کر 20 فیصد ہو گئی اور اب یہ تعداد 24 فیصد سے 30 فیصد کے درمیان ہے۔ 

اب جبکہ 95 فیصد وائرس کا پھیلاوٓ مقامی سطح پر ہو رہا ہے اس لیے ٹریکنگ اور ٹریسنگ عملی طور پر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ساتھ ہی وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں لاک ڈاؤن کی جتنی اہمیت اس وقت تھی جب سندھ نے یہ شروع کیا تھا، اب اس کی وہ اہمیت نہیں رہی۔ ان سطور میں ہم آپ کو بتاتے رہے ہیں کہ عمران سرکار اپنے طریقہ کار کے نتیجے میں عملی طور پر مصنوعی طریقے سے تیز ترین اجتماعی مدافعت کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔

یہ حکومت اس نظریے پر اس حقیقت کے باوجود کاربند ہے کہ ہمارا نظام صحت تباہ حال ہے جس میں دس ہزار لوگوں کے لیے دس ڈاکٹر بھی موجود نہیں ہیں۔ جس طرح سے کرونا کی آمد کے بعد ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کو حفاظتی آلات فراہم کرنے میں اس حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی وجہ سے بہت سے ڈاکٹر کرونا سے لڑتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور بہت سے ڈاکٹر، نرسیں اور دوسرا طبی عملہ اس وقت اس مہلک بیماری سے نبرد آزما ہیں۔ ہم تیزی سے اس فوج سے محروم ہو رہے ہیں جو کرونا سے لڑائی کے محاذ پر پہلی صف میں ہے۔

اب جبکہ پاکستان میں سرکاری طور پر کرونا سے متاثر لوگوں کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے بڑھ چکی ہے، ایک دن کے اندر نئے کیسز کی تعداد ساڑھے چھ ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور ایک دن میں اموات کی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے، ہمارے وزیر اعظم کو عوام سے شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ وہ حفاظتی تدابیر پر عمل نہیں کر رہے۔ وزیر اعظم اب عوام کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر آپ حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کریں گے تو ہم سختی کریں گے۔

لوگ حیران ہیں کہ کیا یہ وہی صاحب نہیں ہیں جو کل تک ہمیں بتا رہے تھے کہ اس بیماری سے آپ نے گھبرانا نہیں؟ کیا یہ وہی نہیں ہیں جو ہمیں بتا رہے تھے کہ آپ نے اس بیماری کو بالکل اہمیت نہیں دینی کیونکہ یہ معمولی نزلہ زکام سے زیادہ نہیں ہے؟ کیا انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ٹیسٹ کرانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ کیا انہوں نے نہیں فرمایا تھا کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ چاہتی ہے اور عوام کے مفاد میں یہ ہرگز نہیں ہے؟ اب وہ صاحب کیسے ہمیں لاک ڈاؤن کرنے اور کارخانے، دوکانیں اور محلے بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں؟

ماہرین حیران ہیں کہ سندھ حکومت کو اٹھارویں ترمیم کے طعنے دینے والے وزیر اعظم اب لاک ڈاؤن اور کاروباری ادارے بند کرنے کی دھمکی کیسے دے رہے ہیں؟ اور اب اگر لاک ڈاؤن کریں بھی تو اس کا کتنا فائدہ ہو گا جب انفیکشن کی شرح حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جب ڈاکٹروں نے کراچی میں پہلی پریس کانفرنس میں لاک ڈاؤن اور مذہبی اجتماعات پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا تو حکومت کے ترجمان شہباز گل نے ان پر سندھ حکومت کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کا الزام لگایا تھا۔

عمران خان تو مسلسل لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ماسک پہننا بھی ابھی شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے تو وہ ٹرمپ کی طرح ماسک سے آزاد تھے۔ حتیٰ کہ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کے حالیہ دورے کے دوران ان کی جاری کردہ تصاویر میں باقی تمام لوگوں نے ماسک پہنے ہوئے تھے لیکن وہ ماسک سے بےنیاز تھے۔ عمران خان اور ان کے وزرا جن میں ان کے محمکہ اطلاعات کے نئے زار شبلی فراز تک اس بات پر فخر کرتے رہے کہ سعودی عرب تک نے مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا دی تھی لیکن عمران خان کی سچی اور پکی اسلامی حکومت نے راس العقیدہ ہونے کا ثبوت دیا اور تراویح سمیت تمام مذہبی تقریبات پر قدغن عائد نہیں کی؟

اب وزیر اعظم عمران خان حزب اختلاف پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ کرونا پھیلے اور زیادہ اموات ہوں۔ تجزیہ کار حیران ہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داری کا بوجھ حزب اختلاف پر کیسے ڈال سکتی ہے جب کہ حکومت نے ہر اس کوشش کو سبوتاژ کیا جس میں حزب اختلاف نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ یہ وزیر اعظم ہی تھے جو حکومت کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں اپنی تقریر کر کے، حزب اختلاف کے رہنماؤں کو سنے بغیر چلے گئے تھے۔

قومی اسمبلی کے پچھلے اجلاس میں جو کرونا کی تباہ کاریوں پر حزب اختلاف کی درخواست پر بلایا گیا تھا، وزیر اعظم نے آنے کی زحمت تک نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ اس خوفناک وبا کے باوجود حزب اختلاف اور تنقیدی میڈیا پر حکومتی حملوں اور نیب کی انتقامی کارروائیوں میں رتی بھر بھی کمی نہیں آئی۔ اسی عرصے میں نواز شریف کے نئے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کے خلاف نئے کیسز بنانے اور شہباز شریف کو نیب بلا کر اور پچھلی تاریخوں میں وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے؟ اس پوری صورت حال میں کرونا کی تباہ کاریوں کا الزام حزب اختلاف پر کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟

وزیر اعظم یہی کہتے رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی مخالفت وہ اس لیے کرتے رہے ہیں کیونکہ اس سے غریبوں کا نقصان ہو گا۔ لیکن ’غریبوں کے ہمدرد وزیر اعظم‘ اس حقیقت کا کیا کریں گے کہ حالیہ ’احساس‘ پروگرام کے تحت تو غریب لوگوں میں اب تک حکومتی اعداد و شمار کے مطابق صرف 121 ارب روپے تقسیم کیے گئے ہیں لیکن امیر طبقات کو مختلف رعایتوں میں یہ ’غریب پرور‘ حکومت اب تک 2122 ارب روپے اور صرف اس سال اب تک 1150 ارب روپے دے چکی ہے۔ 

معاشی جائزے اور بجٹ نے پچھلے 23 ماہ میں ملکی معیشت کا کچا چٹھا کھول کر بیان کر دیا ہے۔ ملکی شرح نمو کو آسمان پر پہنچانے کے دعوے کرنے والی جماعت نے تقریباً چھ فیصد شرح نمو والی معیشت کو پہلے سال میں ان کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق دو فیصد سے بھی کم اور اس سال منفی زون میں لا کھڑا کیا ہے۔

تمام عالمی ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سال اور اگلے سال بھی پاکستان کی معیشت منفی زون میں رہے گی لیکن بجٹ میں ایک بارپھر دو فیصد مثبت شرح نمو کی نوید سنائی گئی ہے۔ ماہرین معیشت اس کو ہرگز ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نیا بجٹ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے ہے یہ پوری مشق اور اعداد وشمار کا یہ گورکھ دھندا صرف اس لیے کیا گیا ہے تاکہ آئی ایم ایف کے منجمد پروگرام کو کسی طرح دھکا سٹارٹ کیا جا سکے۔

بجٹ میں یہ دعویٰ کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا بے معنی ہے۔ جس ملک میں آئے دن نئے بالواسطہ ٹیکس عائد کیے جاتے ہوں اور ہر ماہ کوئی منی بجٹ پیش ہوتا ہو یہ اعلان کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جو بات اہم ہے وہ یہ ہے پچھلی بار جب افراط زر کی وجہ سے ملازم پیشہ طبقہ جس کی حقیقی آمدنی میں 25 فیصد تک کمی واقع ہوئی تھی، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ صرف 10 فیصد کیا گیا تھا۔ بجٹ میں بری خبر ان کے لیے یہ ہے کہ جب مہنگائی 24 فیصد تک چلی گئی ہو، ان ملازمین اور پنشن لینے والوں کی تنخواہوں میں صفر اضافہ ہو گا۔ 

معاشی جائزے نے ان حقائق کی ایک بار پھر تصدیق کی ہے جو ماہرین عرصے سے بتا رہے تھے کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ خطِ غربت کے نیچے جا رہا ہے۔ حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ پچھلے 68 سالوں میں جن میں دو جنگیں اور ملک کا دو لخت ہونا بھی شامل ہے، ہماری معیشت پہلی بار منفی شرح نمو میں چلی گئی ہے اور اگلے سال بھی اسی زون میں رہے گی۔

عمران سرکار نے معاشی طور پر ملک کا جو حشر کیا ہے وہ تو ہم آپ کو بتا چکے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں سیاسی طور پر اتنی کمزور حکومت حالیہ تاریخ میں نظر نہیں آئی۔ 50 کے قریب ارکان پر مشتمل کابینہ میں غیر منتخب اور گہری ریاست کے نمائندے جو کسی طرح بھی عمران سرکار کو یا پارلیمان کو جواب دہ نہیں ہیں، سب سے اہم محکموں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ اب معاملہ پچھلی نشست سے حکمرانی کا نہیں ہے۔ اب عمران خان حکمران بس میں ایک مسافر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نہ ڈرائیور پر ان کا کنٹرول ہے اور نہ کنڈکٹر پر۔ پارلیمان اور حزب اختلاف پہلے ہی اپنی اہمیت کھو چکی ہے اور میڈیا مجبور اور محکوم ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان اس بری معاشی اور سیاسی صورت حال میں ایک برے محلے میں ہے اور مشرق اور مغرب دونوں اطراف سے خطرات موجود ہیں۔ اندرونی کمزوری اور بیرونی خطرات یقینی طور پرایک سنگین معاملہ ہے جس نے وجودی خطرات کو جنم دیا ہے۔ کیا ملک کے نام نہاد حکمران ان خطرات کا ادراک کریں گے؟

بشکریہ انڈپینڈنٹ نیوز