506

قانون نمبر 99

استاد کے کلاس میں روم داخل ہوتےہی طلباء احتراماً کھڑے ہوگئے. استاد نے کندھے سے بیگ اتارا اور طلباء سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے، " آج  ہم معمول سے ہٹ کر سبق پڑہیں گے اور جو اس سبق کے متعلق اچھی رائے بیان کرے گا اسے بطور  انعام کلاس کا مانیٹر مقرر کیا جائے گا" سب طلباء بغور استاد کی بات سماعت کر رہے تھے اور شدت سے منتظر تھے کہ کب سبق شروع ہو اور ہم اپنی بھرپور کی ہوئی تیاری کی مدد سے سبق کو حل کرکے اس ناقابلِ فراموش انعام کے حقدار بنیں. 

استاد نے طلباء کو متوجہ کرتے ہوے سامنے معلق سفید رنگ کے بورڈ پر کالے مارکر سے ایک لکیر کھینچی اور بورڈ کی طرف اشارہ کرکے شاگردوں سے کہنے لگے " جو نظر آرہا ہے اس پر لکھنا شروع کریں".

طلباء اپنی فہم و ادراک کے مطابق لکھتے رہے اور کاپیوں کے اوراق رنگیں بناتے رہے، کچھ دیر بعد استاد نے سب طلباء سے انکا لکھے ہوے جمع کیے اور اونچی آواز میں پڑھنا شروع کردیا تو کلاس میں تمام شاگردوں نے صرف لکیر کی لمبائی، چوڑائی اور اس کے متعلق صفحے کالے کیے ہوے تھے، اور  چمکتے ہوے بورڈ کو نظر انداز کیے رکھا.

استاد شاگردوں سے کہنے لگا "تم سب لوگوں کو صرف کالی لکیر نظر آئی لیکن اتنا بڑا سفید اور صاف و شفاف بورڈ چسپاں ہے، نہ وہ نظر آیا اور نہ اس کی خوبصورتی اور لطافت".

صاحبو! ہمارا بھی یہی حال ہے دنیا میں لاتعداد نعمتیں اللہ کی استعمال کرتے ہیں اور پھر بھی دل و دماغ کے کسی کونے میں شکوہ ضرور ہوتا ہے کہ کاش اگر یہ چیز مل  جاتی  تو میں بڑا خوش ہوتا، اگر فلاں چیز میسر  ہوتی تو  میری تمام لاحق فکریں ختم ہوجاتیں.

 

یہ تجربے سے ثابت ہے کہ اگر بندہ کسی غلطی و گناہ پر کسی سزا کا حقدار ٹھرتا ہے، اور  اسے پابند سلاسل کردیا جائے تو وہ اس مقید زندگی سے چھٹکارا پانے کے لیے چھوٹی سے آزادی پر اپنی گزشتہ پر تعیش زندگی قرباں کرنے کو تیار ہوتا ہے. 

 

آج جو نعمتیں اللہ رب العزت کی ہم تصرف میں لا رہے ہیں،  اگر ان کے استعمال کرنے کی قوت و استعداد  ہم سے چھین لے تو ہم اس کا کچھ بگاڑنے کی سکت نہیں رکھتے، یہ اس کا کرم و فضل ہے کہ ہم اس کی نافرمانی کرتے ہیں، باوجود اس کے وہ ہم سے باز پرس نہیں کر رہا اور نہ وہ ہمارے گناہوں پر ہمیں  پکڑتا رہا ہے.

سننے میں آتا ہے کہ پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کا ایک نوکر ہمہ وقت خوش رہتاتھا، چاہے  آندھی و طوفاں ہو، قحط و افلاس ہو، وہ خوش و خرم رہتا، اگر اس کے وظیفے میں اضافہ کیا جائے یا کمی لیکن مجال ہو جو اس کے چہرے پر مایوسی و تفکرات کے شکن نظر آئیں. بادشاہ کو اس کی اس خوش گوار زندگی سے  جیلسی ہونے لگی،  بادشاہ کا ایک وزیر تھا جو بلا کا شاطر اور فہم و ادراک کا  سمندر، وہ بادشاہ کی پریشانی بھانپ گیا اور عرض کرنے لگا:

عالی جاہ! جاں کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟

 کچھ دنوں سے جہاں پناہ پریشانی میں نظر آرہے ہیں، فرمائیے کیا مسئلہ ہے؟.

بادشاہ کہنے لگا، "میں اس ریاست کا بادشاہ ہوں، میرے پاس دنیا کی ہر چیز موجود ہے، جو سوچتا ہوں اور حکم کرتا ہوں منٹوں میں اس پر عمل ہو جاتا ہے، باجود اس کے مجھے بھی پریشانی اور فکریں لاحق ہیں، اس کے پاس کچھ نہیں ہے اور مجھے کسی چیز کی کمی نہیں لیکن یہ نوکر ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے.

وزیر عرض کرنے لگا "حضور یہ تو کوئی مسئلہ نہیں، قانون نمبر  99 کا  اس پر استعمال کریں، اور تماشہ دیکھیں، پھر دنیا میں اس سے زیادہ کوئی پریشاں نظر نہیں آئے گا".

 

بادشاہ نے پوچھا "قانون نمبر 99 کیا ہے" ؟

وزیر عرض کرنے لگا "بادشاہ سلامت، ایک صراحی لیکر اس میں 99 درہم ڈال کر، صراحی پر لکھیے "اس میں تمہارے لیے 100 درہم ہدیہ ہے" رات کے وقت اس نوکر کا دروازہ کھٹکھٹاکر اس کے دروازے پر صراحی کی گانٹھ ڈھیلی کر کے رکھ دیں اور چھپ کر تماشہ دیکھیے. 

بادشاہ نے وزیر کے بتائے ہوے طریقے پر عمل کیا، رات کے وقت صراحی اس نوکر کے دروازے پر رکھوا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ گئے.

 

نوکر دروازے سے باہر نکلا اِدھر اُدھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا  صراحی اٹھائی اور اندر چلا گیا، کچھ دیر بعد ہاتھ میں ٹارچ پکڑے  باہر نکلا  اور دروازے کے آس پاس کچھ تلاش کرنے میں مصروف ہوگیا  تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ  ایک خاتون اور  لڑکا  بھی باہر نکلے اور اس کے ساتھ کچھ تلاش کرنے میں مصروف ہوگئے،

بادشاہ نے سارا تماشہ دیکھ لیا،

نوکر کی آدھی رات صبر میں گذری تو  آدھی رات جھک جھک، بک بک  اور بیوی بچوں کو ڈانٹنے میں کہ تمہاری سستی و ناہلی کی وجہ سے  ایک درہم سے ہم محروم ہوگئے.

رات گذری صبح بادشاہ سلامت معمول کے مطابق تخت پر براجمان ہوا، وہ نوکر جو ہر روز چہرے پر مسکراہٹ سجائے دربار میں  حاضر ہوتا تھا، آج اس کے چہرے پر مسکراہٹ کے بجائے پریشانی ہے، خوشی کے بجائے غم ہے، آنکھیں لال ہیں، بال بکھرے ہوے، وہ نوکر سراپا غمگین نظر آرہا ہے، تو بادشاہ نے اس سے اس پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے 99 درہم ملنے کی خوشی کے بجائے  اس ایک درہم کی محرومی کا تذکرہ کیا اور پریشانی گوش گذار کردی.

صاحبو! ہم اللہ تعالیٰ کی 99  نعمتیں جو اس نے ہمیں عطاء کی ہوتی ہیں بھول جاتے ہیں، اور ایک نعمت کے حصول میں ساری زندگی سرگرداں رہ کر گذارتے ہیں جو ہمیں نہیں ملی ہوئی ہوتی. 

اور یہ والی نعمت جو  ہمیں نہیں ملی ہوتی ہے، اس میں بھی کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، جسے اللہ کے لیے عطا کرنا کوئی بڑا کام نہیں ہے.

ہم اُس ایک مفقود نعمت کے حصول میں سرگرداں رہ کر موجودہ  نناوے نعمتوں کا مزہ بھی کر کرا کر دیتے ہیں اور ان کی لذت سے بھی محروم نظر آتے ہیں اور مزاجوں کو مکدر کرکے جیتے ہیں.

اس خالق کی طرف سے عطا کردہ نناوے نعمتوں کا احسان تسلیم کرکے اور ان سے مستفید ہوکر اس کے شکر گذار بندے بن کر رہنا چاہیے۔

بشکریہ اردو کالمز