169

بے نظیر بھٹو۔ بجاں تیر بجاں الّے

یہ آمریت کے ظلمت افروز شب وروز تھے جب  منفرد لہجے کے شاعرخالد علیگ نے یہ چند اشعار بطور خاص لکھے تھے 

دشت پیما ہے نفس لاکھ بگولوں کی طرح

دل میںیادیں تری محفوظ ہیں پھولوں کی طرح

گرچہ مامور من اللّہ نہیں تھے ہم لوگ

ظلم ہنس ہنس کے سہے ہم نے رسولوں کی طرح

حسن ہی حسن ہے دنیا میں جدھر بھی دیکھو

عشق پہ جب سے رکھی ہم نے اصولوں کی طرح

میں نے ان اشعار کو مختاررانا سے منسوب کیا اور آج بے نظیر بھٹو کی یادوں کی نذر کرتا ہوں۔ خالد علیگ سے محترمہ بے نظیر بھٹوکی عقیدت بے مثل تھی، وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بیگم بھٹو کی نظریاتی جدوجہد کے بہت بڑے رازداں تھے۔

روزنامہ مساوات کراچی جب ضیا الحق کی ڈکٹیٹرشپ کے ہاتھوں پامال ہوا اور پھر بند ہوگیا تو بھی خالدعلیگ، احفاظ الرحمان ، مہناز رحمان، مساوات کراچی کے چیف رپورٹر عنایت حسین، راقم اور ناصر بیگ چغتائی سمیت دیگر افتادگان مساوات سرائے روڈ کی اس تاریخی عمارت کے ہال میں جمع ہوتے، ملک کی گمبھیرتا زیر بحث ہوتی، آمریت کے عذاب پر خالدبھائی کوئی نہ کوئی کلام سنا دیتے۔

 

ایک بار انھوں نے اے کے بروہی پر نظم سنائی، عنوان اس کا ابوجہل رکھا ۔ عنایت اور ناصر فرمائش کردیتے تو غزل کہہ دیتے، اس میں بھی عہد وعصر کی سیاسی تپش رگ وجاں میں اترتی محسوس ہوتی۔ خالد بھائی کی کل کائنات کیا تھی، ایک کرتا پاجامہ ، اگر سردی ہوتی تو کوٹ ، اچکن یا شیروانی پہنتے ، کرتے کی سائیڈ والی جیب میں ان کی ماچس سگریٹ کا پیکٹ یا دوائی ہوتی۔ دھان پان سے اس بزرگ انقلابی شاعر کے وجود میں ہزار بگولے نشیمن کیے رہتے ، جو وقتاً فوقتاً اٹھے رہتے ، اور مساوات کے ہال میں ان کی آواز گونجتی رہتی۔

 

ہم لوگ ان کے سیاسی تجزیے کو وقت کی رفتار ، سیاست کی دھمک، آمریت کی شکست پائی اور امید سے وابستہ مستقبل کا گجر قراردیتے، مساوات کا کراچی آفس پہلے کبھی آباد تھا، اہل صحافت کو ایک حکومتی اخبار کی سرکولیشن سے کوئی خاص نسبت نہ تھی، لیکن نظریاتی لوگ اس اخبار سے وابستہ ہوئے، ایک وقت ایسا تھا کہ دیوارکے ساتھ صحافیوں کی ایک کہکشاں سجی ہوئی تھی، ہال کے کونے میں شہزاد منظر ، ذکی عثمانی، طاہر احمر ادارتی صفحہ کی آبرو تھے، شوکت صدیقی ایڈیٹر اور اسسٹنٹ ایڈیٹر احفاظ الرحمان تھے۔

 

اس کے ساتھ میگزین سیکشن میں مہناز قریشی، صفورا خیری، اور ناہید سلطان مرزا، اسلم شاہد،شمیم عالم ساتھ بیٹھتے تھے، آغا مسعود حسین نمایندہ خصوصی تھے۔ ادھر مساوات لاہور بھی مزاحمت کا گڑھ تھا ، عباس اطہر اس کے مدیر تھے، ان کی ٹیم میں منجھے ہوئے صحافیوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔

 

یہی وہ دن تھے جب پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تھی، میں نے کراچی میںجونیئر رپورٹر کی حیثیت میں چار سال گزارے۔ ابراہیم جلیس ، ظہیر کاشمیری اور میر جمیل الرحمان کی ادارت میں کام کیا، میں نے بھٹوکو مساوات کے دفتر میں بطور وزیراعظم آتے نہیں دیکھا ، لیکن بیگم نصرت بھٹو مساوات کے دفتر آئیں، اورکچھ دنوں کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو مساوات کے نیوز روم میں آتے دیکھا، ایک دبلی پتلی سی لڑکی کو عنایت حسین سے سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے دیکھا، وہ کئی بار مساوات کے دفتر آئیں۔

دوسری جانب سندھی زبان میں روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ شایع ہوتا تھا، یہ بھی پارٹی اخبار تھا، اور اس کے ایڈیٹرسراج الحق میمن تھے، جو ممتاز سندھی ادیب اور دانشور تھے۔ ایک دن عنایت حسین اوراحفاظ بھائی نے بتایا کہ بھٹو صاحب نے بے نظیر کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ صحافتی اسرار رموز سیکھنے کے لیے مساوات جاتی رہیں اور سیاسی مکالمہ کے لیے شوکت صدیقی اور اسٹاف فیڈ بیک لیں۔ یوں بے نظیر نے صحافتی تربیت ایک غیر روایتی اور غیررسمی انداز میں حاصل کی، وہ ان دنوں دفتر خارجہ کی انٹرنیشنل ڈیسک پر بھی کچھ وقت دیا کرتی تھیں۔

 

یہ وہی نہتی دبلی پتی لڑکی تھی جس نے آگے جا کر ضیا آمریت سے ہولناک ٹکر لی اور پھر مزاحمتی جنگ اس کی سیاسی تقدیر بن گئی۔ آج بھی گلوکارہ نوشی آغا کا گانا بجاں تیر بجاں مقبول پارٹی سانگ ہے۔ یعنی تیر پر تیر چلاؤ تمہیں غم کس کا ہے۔

77ء میں آمریت کی گرم ہوا چلی تو مساوات کی وہ محفلیں اجڑگئیں، لوگ فکر معاش اور غم دوراں میں الجھ گئے،  جس کو جہاں جگہ ملی اخبار کے ہوکر رہ گئے، پہلے مساوات کی ویرانی میں دوپہر گزر جاتی تھی، شام ہوتی تو سب اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیتے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی بقا اور آمریت سے ٹکرانے کی ایک ناقابل یقین تاریخ رقم کی ہے ، اور اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔

 

ہمارا آج کا موضوع بے نظیر کی سیاسی جدوجہد اور اس کی آمریت کے خلاف جنگ اور بلاول بھٹو کا سیاسی مستقبل ہے۔ بے نظیربھٹو کی جدوجہد جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف تاریخ کا حصہ ہے، گزشتہ دنوں لیاقت باغ میں بلاول بھٹو کا جلسہ بے نظیر کے ماضی کے جلسے کی یاد تازہ کرگیا، پنڈی کے عوام نے بینظیر، پی پی اور بلاول سے عہد وفا استوار رکھنے کا وعدہ پورا کیا، جیالوں کا کہنا ہے کہ یہ جلسہ وفاداری بہ شرط استواری کا منہ بولتا ثبوت ہے، بہت دن ہوئے عباس ناصر نے سوال کیا تھا کہ بھٹو سے لیاری والوں کی محبت اور والہانہ پن کی وجہ کیا ہے۔

انھیں لیاقت باغ کے جلسہ نے صائب جواب دے دیا ہوگا۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ بلاول بھٹو ، اور بے نظیر کی اس سیاسی میراث یا legacy کے علمبردار پارٹی کی پرانی نظریاتی اور انقلابی تاریخ کا بھرم رکھیںگے یا نہیں، یہ ان کے لیے سوالیہ نشان اور بڑا چیلجنگ ہوگا۔

 

تاہم اخبارات کی رپورٹنگ اور جلسے میں سروں کے ایک سمندر پر نظر ڈالتے ہوئے مجھے بے نظیر کے جلاوطنی کے خاتمہ پر 86 ء میں زندہ دلان لاہور کے دلوں میں اترنے کا دلکش منظر آج بھی یاد ہے جس کی نیوز تصویر اتارنے کے لیے فوٹوگرافر زاہد حسین گھنٹوں بجلی کے ایک مخصوص پول سے بلندی پر جمے چمٹے رہے ، وہ زوم کیمرے کے ساتھ کسی لازوال تصویر کے منتظر تھے،کہتے ہیں کہ انھیں خبر تھی کہ بینظیرکو اسی پول کے قریب پہنچ کر ہجوم سے خطاب کرنا ہے، زاہد نے وہ تصویریں اتاریں،اور بے نظیر نے وہ تصویریں ریکارڈ میں رکھ لیں۔

یہ بات زاہد نے اپنی لائف اورکام پر مبنی ڈاکومینٹری کی ریکارڈنگ کے موقع پر بتائی۔ اس واپسی میں ضیا کی آمریت دھند میں رل گئی۔ قوم نے سیاست کا ایک نیا باب کھلتے دیکھا، آمروںاور ملکی سیاست پر بھی یہ راز کھلاکہ سیاسی جماعتیں جن کی جڑیں عوام کے احساسات کے ساتھ جڑیں ہوئی ہوں انھیں استبدادیت ہزار بار کھیل سے باہر کرنے کا ڈھنڈورا پیٹے، ان کی اننگز ختم کرنے کے لیے لاکھ امپائرز اپنی انگلی اٹھائیں، عوامی لیڈر اپنے وجود اور واپسی سے بازی جیت لیتا ہے، بے نظیر نے یہ بازی جیت لی تھی۔

 

27 دسمبر کو لیاقت باغ میں بلاول نے بھی عفریتی طاقتوں کو پچھاڑ دیا۔ عوام کی بڑی تعداد جلسہ گاہ میں موجود تھی۔ ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ بے نظیر نے بہت کام کیا۔ بے نظیر کو مشکل حالات میں اقتدار ملا، ملکی سیاست سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے، یہ بزکشی کا گیم ہے، پاکستان کی سیاست میں قوم پوری مغلیہ سلطنت کی تاریخ کو آئینہ میں دیکھ سکتی ہے، پنڈی سے دو میتوں کا سندھ پہنچنا قومی سلامتی پر سوالیہ نشان تھا ، بے نظیر کو ایک جم غفیر سے خطاب کرنے کے بعد قتل کیا گیا، اس کا مطلب وفاق کی اس زنجیرکو توڑنا تھا جس کی بے نظیر علامت تھیں، قاتلوں نے وہی کام کیا جو فلم ’’بیکٹ‘‘ میں پیٹراوٹول کے حواریوں نے رچرڈ برٹن کے ساتھ کیا، اس پر عقب سے وار کیا گیا اور بے نظیر کو پراسرار طریقے سے ماردیاگیا۔

یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا

جب بے نظیر پر حملہ ہوا تو اس وقت میںبی بی سی کے لیے باکسنگ پر ایک پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف تھا، مجھے شفیع نقی جامعی نے کچھ ہی دیر بعد بتایا کہ بے نظیر پر گولی چلی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب دبئی سے وطن واپسی پر بینظیر کے قافلے پرکارساز ایریا میں قاتلانہ حملہ ہوا تو اس میں لگ بھگ180کارکن اورجلوس میںشریک افراد جاں بحق جب کہ 500 زخمی ہوئے تھے۔

اس سے ایک روز قبل اسی شفیع نقی نے مجھے حکم دیا کہ گھر جانے کی کوشش نہ کرنا ، بلکہ رشید شکور تمہیں سیڈکو سینٹر میں بی بی سی کے دفتر لے آئیں گے، وہ بے نظیر پر کچھ تاثرات نشرکروانا چاہتے تھے، میںنے کہا کہ اجازت ہو تو ایک آدھ صفحہ لکھ کر آجاؤں، انھوں نے او کے کہا اور میں وہ پرچہ لے کر بی بی سی کراچی آفس پہنچا تو میری ملاقات شعبہ کے سربراہ عامر احمد خاں سے کرائی گئی، میری ریکارڈنگ ہوئی، اس تبصرہ کے اختتام پر ایک جگہ کہا گیا کہ ’’بے نظیر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے، اور اغلب امکان ہے کہ وہ ’’ شہادت گہہ الفت میںقدم رکھ رہی ہیں۔‘‘  لیکن ریکارڈنگ کرتے ہوئے میں نے یہ آخری لائن نہیں سنائی۔ پھر رات کو بے نظیر کے قافلے پر قیامت ڈھا دی گئی، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ایکسپریس اخبار میں تبصرہ شایع ہوا، اور اس میں لکھا تھا کہ ’’ بے نظیر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔ ‘‘شہادت گہہ الفت والی لائن کٹ گئی۔

بشکریہ ایکسپرس