420

  ابتدائے سخن میں باسل نے خود فنا کردیا..!

   ڈیرہ غازی خان کی دھرتی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں (15) صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا۔ ایک ممتاز بلوچ سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ 1887 میں ڈیرہ غازی خان دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا۔ اس وقت یہ شہر موجودہ مقام سے 15 کلومیٹر مشرق میں واقع تھا۔ ڈیرہ کا لفظ فارسی سے نکلا ہے جس کے معنی رہائش گاہ ہے۔ تاہم بلوچ ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ ساتھ مہمان خانہ یعنی وساخ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اگرتاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے ۔ضلع ڈیرہ غازی خان قدیم شہر کی بنیاد 1474ء نئے شہر کی بنیاد 1910ء محل وقوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے، شمال میں تھل اور مشرق میں دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے۔علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے، لغاری علیانی، عیسانی،کھوسہ، مزاری، لنڈ، گورچانی، کھیتران، بزدار، اور قیصرانی، اور یہاں کے تمندار ہیں، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی، انہوں نے قبائلی سرداروں کو اختیارات دیے۔ عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی خان کے صحت افزاء مقام فورٹ منرو کے مقام پر ہوتی ہیں جو سطح سمندر سے 6470 فٹ بلند ہے۔ انتظامیہ کے لیے بارڈر ملٹری پولیس بنائی گئی ہے جو انہی قبائلی سرداروں کی منتخب کردہ ہوتی ہے۔ 1925 میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان میں ہونے والے معاہدے کے تحت ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو ریاست بہاولپور میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم 1982 میں ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور وغیرہ کو بہاولپور سے علاحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں ضم کر دیا گیا۔ بعد میں اس شہر کو منفرد اور نقشے کے مطابق آباد کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ شہر کی تمام سڑکوں، گلیوں اور بلاکون کو یکم جولائی 1900 میں مختلف بلاکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس وقت کے منصوبے کے مطابق ہر گھر کے لیے پانچ مرلے کا رقبہ مختص تھا اور ہر بلاک 112 مرلے پر مشتمل تھا۔ تاہم وراثتی طور پر مکانات کی منتقلی سے گھروں کا حجم بہت فرق ہو گیا۔ 1982ء میں ڈیرہ غازی خان ڈویژن بنا۔ ڈیرہ غازی خان کی چار تحصیلیں ہیں۔ ڈیرہ غازی خان۔ تونسہ شریف۔ ٹرائیبل ایریا۔ اور کوٹ چُھٹہ ڈیرہ غازی خان کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، غربت اور بے روزگاری اس خطے کی پہچان ہے پسماندگی اس علاقہ کامقدر ہے شاید جس کا واضع ثبوت اس علاقہ کے ادبی حلقوں 
اہل قلم تحریر سے سب کچھ عیاں ہوجاتا ہے.
کسی بھی علاقہ میں محبت کاپیغام ادباء کی قلم  سے وابسطہ ہوتاہے۔اہل قلم نے نفرت کو محبت سے مٹانے کی ہرممکن کوشش کی اور کامیابی کو اپنے نام کیاDG Khan  کے ادباء نے اپناکر دار ہمیشہ مثبت اندار میں حقیقی طور ادا کیااور ادباء اپنے علاقہ کا فخر ہوتے ہیں جو خود کو اندھیروں میں رکھ شمع کی طرح جل کر اہلیان علاقہ اپنی قوم کو روشنی دیتے ہیں۔ادب کی دنیا میں اپنے علاقہ کی حقیقی معنوں میں اپنا کردار اداکیا ۔
ڈی جی خان کے ادباء کی فہرست۔شہید محسن نقوی،سعید احمد راشد، احسان نقوی،حسین گوہر،شاہان نقوی، فرحت عباس شاہ،معظمہ نقوی، غیورنقوی، فرید قیصر،احمدخان طارق عشرت لغاری،ماسٹراعجاز ڈیروی، جاوید احسن پٹھان،منصوراصغرچنگوانی،ڈاکٹرممتاز حسین جوئیہ،غلام فرید سراجانی،غلام رسول ڈڈا مرحوم،ذکااللہ انجم ملغانی، نواز جاوید،رشیدخان جتوئی،سید زمردحسین شاہ مرحوم، غلام اکبر بزدار، منظورحسین مشکور،ساقی سیمونی، فرخ عدیل،فضل گیلانی نجمہ شاہین کھوسہ،ایمان قیصرانی، حسن علوی،رامز ہاشمی، شبیرناقد صباحت عروج،عدنان محسن ودیگر ان گنت لوگ موجود ہیںمگر ان میں ایک ایسا نواجوان شاعر لکھاری موجود بھی ہے جس نے اپنی قلم کے بل بوتے پر اپناایک مقام بنایا جس کی محنت اور حالات زندگی نے ایک عام انسان سے اسے عظیم انسان بنایادیا۔ جس کی قلم نے حقیقت کا وہ آئینہ دیکھا یا،کہ جھوٹ اور سچ عیاں ہوگئے۔ اس نوجوان لکھاری کانام محمد باسط علی باسل ہے۔
محمدباسط علی باسل ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے جس کی تعلیم ایم اے اردو ہے۔اور ضلع ڈیرہ غازی خان کی بستی بھانڈہ کا رہائشی ہے۔جس کی عمر اس  وقت 26 سال ہے مگر ادبی تخلیقات میں ایک پرعظم اور پختہ تخیل کا مالک ہے۔ادب میں اس نوجوان کی سرپرستی کرنے والے اس عظیم انسان کا نام فضل عباس ظفر ہے جس نے اس نوجوان کو اس مقام تک پہنچایا ۔ادبی حلقوں میں متعارف کرایا ۔ادب کی دنیا میںا ستادو رہنما   کی کاوش سے آج باسل کی کتاب'' ابتدائے سخن ''میرے ہاتھ میںہے۔ باسل کا تعلق ایک مڈل کلاس طبقہ سے ہے۔ اور بے حس معاشرے کے طنزیہ الفاظ کا سامنا اسے کرنا پڑتا ہے۔ توکبھی رشتداروں کی لاتعلقی اور بلا  جہ تنقیدنے اسے کئی بار توڑ دیا وہ ٹوٹ گیا مگر پھر صبر کادامن تھامے حالات کاسامنا کیا بلاآخر2017  میںمنافقت ناانصافی دھوکہ دہی سے تنگ آکر باسل نے بلاآخر قلمی جہاد کا آغاز کیا او حال ہی میں ان کی پہلی کاوش ''ابتدائے سخن '' کے نام سے اشاعت ہوئی اور یہ کتاب نہیں بلکہ ہمارے بے حس معاشرے کی عکاسی ہے اور ان جاگیرداروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جن کے منافقانہ رویے کی وجہ آج باسل کا علاقہ تعلیمی زیور سے محروم ہے ۔ ابتدائے سخن جو کہ اردو اور سرائیکی زبان پرمشتمل کاوش ہے اور یہ کتاب اپنی مثال خود آپ ہے باسل کا ادبی حلقوں میں ایک نمایا کرادار رہا ہے اور ''پرکھ ادبی سنگت'' کوٹ چھٹہ میں اس وقت نائب صدر کی ذمہ داری بھی باخوبی نبھار ہے ہیں۔ان کی کتاب ''ابتدائے سخن ''میں ہر موضوع موجود ہے چاہیے عشق ،محبت رسوائی ،جدائی بے وفائی محبوب کی بے وفائی بھی موجود ہے مگر ساتھ تخیل فکر اقبال بھی موجود ہے حالات زندگی کا دردناک آئینہ بھی دکھایا ہے  فکر کلام سے چند شعر
دل کوحق پہ لانا ہوگا 
ظلم کو ظلم بتانا ہوگا
ظلم پہ اور حجاب نہ ڈالو 
ظلم کوسامنے آنا ہوگا
ظلمت کی شب میں ہرایک کو
امن کا دیب جلانا ہوگا

 باسل کی شاعری میں وسیب کا دکھ ہے تو کہیں اپنوں کی طعنہ زنی نے اسے توڑدیاکہیں وسیب کے نوجوانوں کی بے روزگاری کا غم ہے ،توکہیں
جاگیرداروں کی منافقت اور وسیب کی مظلومیت کادکھ ہے باسل کی شاعری کوئی عام روایتی نہیں،بلکہ ان کے ہرنظم اورہرغزل ایک واقعہ ایک دکھ ایک پریشانی سنارہی ہے ۔باسل نے '' ابتدائے سخن لکھتے وقت خود کو اس قدرفنا کردیا کہ اس کی شاعری پڑھتے پڑھتے آنکھ نم ہوجاتی ہے.
'' ابتدائے سخن میں باسل کی ہر نظم اپنے اندر ایک کہانی سمائے ہوئے ہے۔کہیں باپ بیٹے کے درمیاں مکالمہ ہے ،غربت کے ظلم نے کس قدر ان سے خوشیاں چھین لی ہیں کہ عید کے دن بھی بیٹا باپ سے کچھ مانگ کر مایوسی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے مگر سوائے صبر کے کچھ نہیں ملتا بس ادھورے خواب جن کی حقیقت کچھ نہیںہوتی ۔سوائے آنسو غم دکھ کے...!
سرائیکی نظم  (غریب پیو تے پتردیدرمیاں مکالمہ)
بابا ،    بابا    عید   مناووں
اج تاں نویں کپڑے پاووں

سنگتی دے گھر ڈیکھ میں آیا 
اساں وی کچھ خاص پکاووں

کیوں ساڈے گھرچپ ھے بابا
خوش تھی ھک بے نال الاووں

اس نظم میں وہسب کچھ عیاں ہوچکا ہے جس کے بعد کچھ نہیں غم بچتا عید کا دن بھی سوگ کا دن ،ان کی کتاب سچائی کا الم ہے جس نے حقیقت سے حقیقت تک وہ سب لکھ ڈالا جو جہاد قلم میں بے حد ضروری تھا جہاد قلم میں باسل نے فرض ادا کیاہے میںاس نوجوان کے لیے 
دعاگو ہوںہزاروں سال جئے باسل ادب کی دنیا کا ایک روشن ستارہ ہے ،ان کی کتاب  ''ابتدائے سخن ''مجھے بہت متاثر کیا ....!
اس کتاب پرلکھتے لکھتے کئی صفحات درکارہونگے ،مگر المختصر ایک حقیت کاعکس ہے۔
 تبصرہ :  بانی وسربراہ انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان ، ماہنامہ افکارافق انٹرنیشنل ایڈیٹرانچیف شہزادافق
  

بشکریہ اردو کالمز