میں نے اپنا کنواراپن بیج ڈالا

 """عرفانیات """

سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی۔ میں اپنے معمول کے مطابق اپنی رفاهی اداره "المبارک ویلفئیر سوسائٹی انٹر نیشنل"کے ھیڈ آفس یونیورسٹی روڈ پشاور میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر اپنی آفیشل ورک میں مصروف تھا که باهر ریسپشن پر ایک نسوانی آواز نے میرا توجه اپنی طرف مبذول کرائی, "عرفان هاشمی کون هے,وه کهاں هے,میں نے ان سے ملنا هے" یه لگ بگ پچیس سال کی ایک خوبرو لڑکی تھی جسکا نام "شبلو" تھی جو کوه قاف کی پریوں جیسے حسین تھی ,رخسار میں جنگلی گلابوں کی سرخی بھری هوئی تھی,بال سنهرے تھیں,آنکھیں شهابی اور نیلگوں پانیوں جیسے نیلی تھیں جو اندر آکر میرے سامنے والی صوفے په بیٹھ گئی جس کے گلابی گالوں پر غم و اندوه کے اثرات نمایاں تھے اور چهرے پر موجود اضطراب و بے چینی کی نشانیاں اس کے دل و جگر کے اندر پکتی لاوا اور تمام المناکیوں کا پته دے رهی تھی. وه بیٹھتی هی بولی "آپ عرفان هاشمی هے" میں نے اثبات میں سر هلایا تو وه یوں لب کشا هوئی, سر! میری شادی هونے والی هے ,میرا ابو بیمار هے اور هم کرائے کے گھر میں رهتے هیں,سسرال والے مجھ سے "جهیز "مانگتا هے جو همارے استطاعت میں بالکل نهیں,رخصتی کی تاریخ طے پائی هے جبکه همارے پاس جهیز لینے کا اب تک کچھ بندوبست نهیں اور وه لوگ جهیز کے بغیر بارات لے جانے کو تیار نهیں. "ھاشمی صاحب پلیز میرا کچھ هیلپ کرو" میں نے پهلی فرصت میں اس کے لئے چائے منگوایا اور تسلی دی که آپ پریشان مت هو,الله خیر کریگا. میں نے المبارک کی طرف سے محدود حد تک تعاون کی یقین دھانی کرائی اور پورے جهیز کا بندوبست کرنے سے معذرت کر کے کها که اس وقت همارے ساتھ فنڈ نهیں هے.البته اسی وقت میں نے محکمه زکات سے رابطه کیا اور المبارک کا سوشل موبلائزر اس کے ساتھ محکمه زکات کے آفس بیجھ دیا جهاں سے ان کو جهیز فارم مل گیا جسے مقامی چئیرمین سے دستخط کرکے واپس جمع کرنا تھا.وه جهیز فارم کے ساتھ گھر چلی گئی اور میں یهاں مطمئن تھا که اس کا مسئله چند دنوں میں حل هو جائیگا.. ایک هفته گزر گیا,رات کا وقت تھا اور میں سونے کی تیاری کر رها تھا که میرے موبائل کی گھنٹی بجی..موبائل کان سے لگایا تو اس طرف وهی نسوانی آواز ایک بار پھر میرے کانوں سے ٹکرائی. "سر مجھے محکمه زکات کی طرف سے کچھ بھی مالی مدد نهیں ملی اور آپ کے ادارے کی طرف سے ملنے والی تعاون بھی اتنی نهیں تھی جس سے جهیز سے پورا هوسکتا. "میں نے حیرانگی سے پوچھا تو پھر کیا هو گا اور بارات کب هے,اس نے کها بارات کل هے اور میرا پورا جهیز مجھے مل گیا ,میں نے بهت بڑے جهیز کا بندوبست کر دیا. میں نے خوشی سے پوچھا کهاں سے بندوبست هوگیا, اس کی آواز بھر آئی اور زار وقطار رونے لگی,میں نے کها کیوں کیا هوا,اس نے چیختی چلاتی آواز میں کها "سر میں نے اپنا کنواراپن بیج ڈالی,میں نے اپنی عزت سرمایه داروں کے سامنے نیلام کردی" میں جھونک اٹھا ,کیا که رهی هو ,عزت بیج دی جهیز کی خاطر.اس نے کها هاں هاں میرے پاس دوسرا کوئی راسته نهیں تھا اور سسرال والے جهیز کی ضد سے باز نهیں آرهے تھے,میں سسرال والوں اوراپنے نئے بیاه دولها کو سبق سکھانے جا رهی هوں ,میں نے اسے بتانا هے که جهیز تو ساتھ لائی هوں مگر عزت اور کنواراپن آپ لوگوں کے رسم ورواج والی اناؤں کے بازار میں بیج ڈالی اور پھر اس کی کال کٹ گئی... میں نے دوباره ملانے کی بهت کوشش کی مگر نمبر آف آرها تھا. آج کل ہمارے معاشرے میں جہیز ایک لعنت کی صورت میں پھیلا ہوا ہے. غریب والدین کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنی بساط سے بڑھ کر ہی جہیز دیں تا کہ ان کی بیٹی کی سسرال میں ناک اونچی رہے. اس خواہش کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی میکے سے جہیز کم لے کر اے تو اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ بات اس کے لئے ناقابل معافی جرم بن جاتی ہے. ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی کے بعد جہیز کی وجہ سے جھگڑےشروع ہوتے ہیں اور نوبت بیوی کے قتل یا طلاق تک جا پہنچتی ہے. بہت بار اخبار میں ایسی ہی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں جس میں لڑائی جھگڑے کی وجہ جہیز ہی ہوتا ہے. لوگوں کو لالچ نے اس حد تک اندھا کر دیا ہے کہ لوگ یہ بھول ہی گئے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیه وسلم نے ہمیں کس سادگی کا درس دیا ہے. اگر اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاری جاۓ تو ایسی صورت ہال سے بچا جا سکتا ہے. جو والدین بیٹیوں کو جہیز نہیں دے سکتے ان کی بیٹیاں گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں. اور کسی معجزے کا انتظار کرتی رہتی ہیں. ہمارے معاشرے کی انتہائی بری بیماریوں میں سے ایک بیماری جہیز بھی ہے. اور اس بیماری کا علاج ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اسلامی اصولوں کو رائج کریں. سادگی کو اپنا شعار بنایئں. اس معاملے میں بھی میڈیا کا ایک اہم کردار ہے. ٹی وی ڈراموں میں لڑکیوں کو اتنا شاندار جہیز ملتا ہے بیٹوں کی مائیں بھی ایسے ہی جہیز کے خواب دیکھنے لگتی ہیں اور نتیجتاً گھر میں لڑائیاں جگھڑے شروع ہو جاتے ہیں جو کہ گھر کا سکوں برباد کر دیتے ہیں. اگر میڈیا سادگی کا درس دے تو اس معاشرے میں سدھار پیدا ہو سکتا ہے. "شبلو" سے ملے مجھے ایک مهینے سے زیاده عرصه قریب هونے کو هے مگراس کا یه جمله که "میں نے اپنا کنواراپن بیج ڈالی" اب تک میرے کانوں میں زهر اگل رها هے اور میرے دماغ پر هتھوڑے برسا کر میرے اوسان خطاء کئے هوئے هیں. "شبلو" آج میرے سامنے نهیں لیکن میں تخیلات کی دنیا میں خود کو "شبلو" کے سامنے هر آن پاتا هوں ,اس کے گلابی گالوں اور شهابی آنکھوں سے اس معاشرے سے نفرت اور انتقام کی آگ برس رهی هے اور میں مجرموں کی طرح سر جھکائے نیم هوش کھڑا هوں...که میں شبلو کی کنواراپن بچا نه سکا!!

بشکریہ روزنامہ آج