باغ فدک کا واقعہ اور ابوبکرصدیقؓ کا انصاف : 

"""عرفانیات """

اب تک نیوز چینل کے ایک پروگرام میں ایک خاتون وکیل سیفی علی خان نے کہا کہ مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میڈم مجھے انصاف نہیں ملتا تو میں انہیں کہتی ہوں کہ قیامت تک ملے گا بھی نہیں۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ناانصافی اور ہماری جوڈیشری کا بیڑہ غرق اس دن ہوگیا تھا جس دن سیدہ فاطمۃ الزہرہ انصاف لینے دربار گئیں اور انہیں انصاف نہیں ملا اور نعوذباللہ انکی گواہی کو جھٹلایا گیا۔
خاتون کا مزید کہنا تھا کہ اس جوڈیشری کا اسی دن بیڑہ غرق ہوگیا تھا (نعوذباللہ)۔
سیفی علی خان کا اشارہ تاریخ کے اس واقعہ کی طرف تھا جس میں سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی عنہا باغ فدک کو وراثت میں ملنے کا مطالبہ لیکر خلیفہ ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں حاضر ہوئی جس پر ابوبکر صدیقؓ نے شرعی مسئلہ بتا کر اطمینان کے ساتھ اسےرخصت کیا۔
ایک اسلامی ریاست کے اندر ٹی وی چینل پر بیٹھ کر ابوبکر صدیقؓ پر انصاف کا بیڑہ غرق کرنے کا الزام لگانا کوئی معمولی بات نہیں، جس نے نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی محبت میں گھر میں سوئی تک نہیں چھوڑا وہ کس طرح بے انصاف ہوسکتا ہے۔
باغ فدک کے واقعہ کو شرعی تقاضوں اور حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو سیفی علی خان جیسے الزام لگانے والوں کے الزام تراشیوں کا پول کھول جائیں گے۔
اس سے پہلے کہ ہم اپنی بحث کا آغاز کریں۔ ہمیں معلوم ہونا چا ہئےکہ انصاف کا اصل مطلب کیا ہے۔ اور عام زندگی میں اس سے کیا مراد ہے۔
مفکرین اور فلا سفہ کے نزدیک عدل یا انصاف کی تعریف کچھ یوں ہے"اشیاء کو انکے اصل مقام پر رکھنا انصاف ہے۔" دوسری طرف انصاف کا الٹ ظلم اور ناانصافی ہے۔ جس کی تعریف یوں ہے۔"اشیاء کو انکے اصل مقام سے ہٹادیناناانصافی ہے۔"جسے ظلم بھی کہتے ہیں۔
اب آتے ہیں فدک کے واقعہ کے طرف اور ان حقائق کی طرف جس کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت فاطمہؓ کو وراثت کے مطالبے سے منع فرمایا جس پر فاطمہؓ مطمئن ہوکر دربار صدیقؓ سے چلی گئی ۔

فدک مدینہ منورہ سے تین منزلوں پر واقع ایک بستی کا نام ہے۔ 7ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تو آپﷺ مدینہ تشریف لارہے تھے تو آپﷺ نے حضرت محیصہ بن مسعود کو اہل فدک کی طرف بھیجا کہ انہیں اسلام قبول کرلینے کی دعوت دیں۔ اس کے سردار یوشع بن نون یہودی نے فدک کی آدھی آمدنی پر صلح کرلی اور اسی میں باغ فدک مسلمانوں کے قبضہ میں آیا چونکہ یہ مال لڑائی کے بغیر اور صلح کرنےکے عوض تھا اس لیےاسے مال فئی کہتے ہیں۔اوریہ باغ آپ ﷺ کےحصہ میں آیا۔ آپﷺ اس باغ سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کرتے اور غرباء میں بھی۔ آپ ﷺکی وفات کے بعد سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سے اس باغ کامطالبہ کیا تو آپؓ نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی۔
اس سے متعلقہ روایات اس طرح ہیں:

صحیح بخاری میں درج ہے کہ 
’’اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی میراث کا مطالبہ کرنے آئے، یہ فدک کی زمین کا مطالبہ کررہے تھے اور خیبرمیں بھی اپنے حصہ کا۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے، بلاشبہ آل محمد اسی مال میں سے اپنا خرچ پورا کرے گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا، واللہ، میں کوئی ایسی بات نہیں ہونے دوں گا، بلکہ جسے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہوگا وہ میں بھی کروں گا۔‘‘
اس حدیث میں سیدہ فاطمہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کے مطالبہ " میراث " یعنی ترکہ سے شرعی حق اور "سہم " حصہ استعمال ہوئے ہیں ، اگر وہ زمین انہیں ہبہ کردی گئی تھی ،تو اسے میراث اور ترکہ میں حصہ کے نام پر طلب کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
اور ان کے مطالبہ کے جواب میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حدیث
«لا نورث، ما تركنا صدقة ۔ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے»
سنانا بھی ثابت کرتا ہے کہ وہ ترکہ سے حصہ کے طلبگار تھے ،
اورانبیاء کی وراثت ان کی وفات کے بعد ورثا میں تقسیم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں گزر چکا ہے۔

یہی روایت سیدنا ابوہریرہؓ سے بھی اس طرح مروی ہے کہ:
«قال لا تقسم ورثتی دینارا ماترکت بعد نفقة نسائی و مؤنة عاملی فھو صدقة»
’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میرا ورثہ دیناروں کی صورت میں تقسیم نہیں ہو گا، جو کچھ بھی چھوڑ جاؤں تو وہ زوجات کے اخراجات اور عمال کی محنت کے بعد سب صدقہ ہو گا ‘‘
(سنن ابی داؤد کتاب الخراج وإلا مارۃ والفئی باب فی صفا یارسول اللہ من الأموال 2974)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتا جو کہ ان کی اولاد وغیرہ میں تقسیم ہوں۔ اس کی تائید معروف شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابوعبداللہ جعفر صادق سے اس معنی کی روایت نقل کی ہے:
«عن ابی عبداللہ قال ان العلماء ورثة الأنبیاء و ذالک ان الانبیاء ................ دراھما ولا دینارا وانما ورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ بیشئ منھا اخذ بحظ وافر» (اصول کافی:1؍32 باب صفة العلم وفضله)
حضرت جعفر صادق نے فرمایا: ہر گاہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا۔‘‘

اور یہ صرف انبیاء کی اولاد ہی کے لیے قانون نہیں بلکہ ان کی بیویوں اور دوسرے رشتہ داروں کے لیےبھی ہے کہ انبیاء کی وراثت سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ کی وفات کے بعد امہات المؤمنینؓ نے جب آپ ﷺ کے ترکہ کے لیے ارادہ کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہؓ نے منع کردیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
«عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»
( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)
’’ام المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ ﷺ کی ازواج نے یہ ارادہ کیاکہ حضرت عثمانؓ کو سیدناابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس وقت میں (عائشہ) نے ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘

مذکورہ بالا نصوص سے پتہ چلا کہ انبیاء کی وراثت ان کی اولاد اور رشتہ داروں میں تقسیم نہیں ہوسکتی اوریہ انبیاء کے لیے ایک قانون تھا جس پر نبی کریم محمدﷺ کی ذات بھی شامل ہے۔ 
لہٰذا ان احادیث کی روشنی میں خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکرؓ نےانصاف کے تقاضے شرعی بنیادوں پر پورے کرتے ہوئے سیدہ فاطمہؓ کو باغ فدک وراثت میں نہ دیا اوراس طرح اس حدیث کے تحت امہات المؤمنین کوبھی آپ ﷺ کے ترکہ نہیں مِلا ۔
چودہ سوسال بعد شرعی اُصولوں اور تاریخی حقائق سے نابلد سیفی علی کو چاہئیے کہ وہ تاریخی حقائق اور انبیاء علیہم السلام کی وراثتِ تقسیم کا قانون پڑھکر بےجا الزام تراشیوں سے امت مسلمہ کے غیرت کو مجروح نہ کرے۔
جس چینل پر اس خاتون نے ایسی باتیں کی ہیں اسے بین کیا جائے اور اس خاتون کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔اس گستاخانہ گفتگو کی تشہیر نے پیمرا کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے۔پیمرا ایک سیاسی ادارہ بن چکا ہے۔ جو چینل جو چاہتا ہے بول دیتا ہے لیکن پیمرا نوٹس نہیں لیتا۔

بشکریہ روزنامہ آج