276

تنگ آمد بجنگ آمد!

بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد آئے روز پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں لیکن طالبان دہشت گردوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تو طالبان حکومت الزام تراشی پر اتر آئی ہے۔

افغانستان کے میڈیا نے الزام لگایا کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے افغان سرزمین پر حملے کرکے معصوم بچوں کو نشانہ بنایاہے۔ افغان حکومت نے ہمارے سفیر کو طلب کرکے باقاعدہ احتجاج بھی کیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق کسی پاکستانی جنگی طیارے نے افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی۔ پاکستانی حکام کے مطابق جن جگہوں کو نشانہ بنایا گیا وہ باقاعدہ تحریک طالبان کے مراکز تھے۔

اس واقعے کے بعد آنے والی ویڈیوز کے مطابق 20 کے قریب متحرک جنگجو اس کارروائی میں مارے گئے۔ ان میں کوئی خاتون یا بچہ شامل نہیں ہے۔ کمانڈرعمر شہیف باجوڑی جو کہ ٹی ٹی پی ڈیرہ اسماعیل خان کے سربراہ ہیں کے ٹریننگ کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں رمضان کے آغاز میں ٹی ٹی پی نے ایک پولیس موبائل پر میزائل حملہ کرکے 4 پولیس اہلکار شہید کیے جبکہ دو روز قبل بھی ڈیوٹی پر مامور ایکسائز اہلکاروں کو شہید کیا تھا جبکہ دوسری کارروائی ٹی ٹی پی کے ایک اور کمانڈر انار گل کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اس کے باوجود سرحد پار سے پاکستان کی سرحد اور سرحد کے اندر ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔ ابھی رمضان کے آغاز پر ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف البدر آپریشن شروع کیا ہوا ہے جس میں سیکورٹی فورسز کی کئی شہادتیں ہو چکی ہیں۔ رمضان کے آغاز سے ہی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سرحد پر بھی حملے کیے گئے۔

باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے اندر بھی کارروائی کی گئی۔ رمضان سے قبل ہی ٹانک کے فوجی قلعے پر حملہ کرکے یرغمال بنانے کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن پاکستانی سیکورٹی فورسز نے اسے ناکام بنا دیا جانی قربانی کے بعد۔ پاکستان کافی عرصہ سے افغانستان کے مشرقی صوبوں میں تحریک طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کی سرحد پار کارروائی پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

داعش کے وہ جنگجو جو افغان حکومت کی کارروائیوں کے بعد تنظیم سے متنفر ہو رہے ہیں وہ ٹی ٹی پی میں شامل ہو رہے ہیں افغان طالبان اس سلسلے کو روک نہیں سکے۔ دسمبر 2021 کے بعد سے داعش اور تحریک طالبان کی پاکستان کے اندر کارروائیاں بڑھ چکی ہیں۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان خصوصی طور پر نشانہ ہیں کیونکہ یہ افغان سرحد کے قریب ہیں۔ دوھا (قطر) معاہدے میں افغان طالبان نے تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن پاکستان کے دوست کہے جانے والے طالبان پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین کا مسلسل استعمال ختم نہ کر سکے۔

اور ٹی ٹی پی کی کارروائیاں اشرف غنی کے دور سے بھی بڑھ گئی ہیں اور خصوصی طور پر وہ ٹی ٹی پی کمانڈر بہت زیادہ خطرناک بن گئے ہیں جنھیں کابل میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد جیلوں سے آزادی ملی تھی۔

اگر صرف اپریل کے مہینے میں سرحد پر کارروائی کا جائزہ لیا جائے تو ایک خطرناک صورتحال دکھائی دیتی نظر آتی ہے۔ 12 اپریل کو دہشت گردوں کے حملے کے بعد سخت ترین جوابی کارروائی میں ایس ایس جی سے تعلق رکھنے والے میجر شجاعت حسین نے سپاہی کے ہمراہ شہادت پائی۔اس کے دو دن بعد 14 اپریل کو دتہ خیل شمالی وزیرستان جو کہ خوست سے قریب ہے میں چپکے سے حملہ کرکے پاک فوج کے سات جوانوں کو شہید کر دیا گیا۔

ابھی چند روز قبل ایک اور میجر کو شہید کیا گیا ۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق اس سال کے آغاز سے اب تک 100 کے قریب سیکورٹی اہلکار سرحد پار سے کیے گئے حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔

بشکریہ ایکسپرس