204

وہ میرا شہر مجھے لوٹا دو

گزشتہ دنوں پشاور میں اندرون شہر گھومنے کا موقع ملا۔ چار گھنٹے شہر کے اندرونی علاقوں میں پھرنے کے بعد شہر کافی بدلا بدلا سا محسوس ہوا۔ محرم کے پانچ دن گذر چکے تھے ہر جگہ سیکیورٹی ہی سیکیورٹی نظر آ رہی تھی۔ پولیس کے جوان ہر گلی کی نکڑ پر پہرہ دے رہے تھے۔

اندرون شہر داخلی راستے صرف پیدل چلنے والوں کے لیے کھلے تھے باقی ہر قسم کی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی تھی۔ چوک چاہ شہباز پہنچنے کے بعد اپنے پرانے ٹھکانے حاجی ناصر کی دکان پر قہوہ پیا تو اس نے بتایا کہ کل سے دکانیں بند ہو جائیں گی اور اب بدھ کو ہی کھل سکیں گی تو میں نے اسے یاد دلایا کہ کتنے اچھے دن تھے جب محرم الحرام کے جلوس پہلے دن سے لے کر دسویں تک جب بھی نکلتے تھے تو بازار کھلے رہتے تھے۔ سیکیورٹی کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔

 

عام آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں تھی، نہ کسی کا شناختی کارڈ یا علاقہ اور فرقہ ہی پوچھا جاتا تھا۔ پھر دماغ میں بالکل آج سے 30 سال قبل کا سانحہ گھومنے لگا۔ بالکل 30 سال قبل جب میرا گھر کوچی بازار میں تھا تو میں سہ پہر کی نماز کوچی بازار کی مسجد میں پڑھ کر نکل رہا تھا کہ باہر بھگڈر دیکھی۔ لوگ خوف میں بھاگ رہے تھے تو سننے میں آیا کہ کوہاٹی مسجد کے قریب فائرنگ ہوئی ہے اور کئی لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔اس کے بعد شہر پشاور نے ایک بہت ہی بھیانک فسادات کا نظارہ کیا شہر میں کرفیو لگایا گیا ۔

 

 

اس سے قبل ہم کشمیر میں کرفیو کا سنتے تھے اب ہمیں خود اس کا احساس ہوا کہ کرفیو کیا تھا۔ ہم نے ایف سی دیکھی جو اپنی مثال آپ تھی۔ میرے گھر کے باہر دو ایف سی والوں کی ڈیوٹی تھی، میں ایک سے اجازت لے کر باہر گلی کی مسجد گیا واپسی پر اس اہلکار نے آنے نہیں دیا اور کہا کہ آپ نہیں جا سکتے۔ میں نے کہا یہ اوپر میرا گھر ہے اور آپ ہی سے اجازت لے کر مسجد گیا تھا تو اس اہلکار نے جواب دیا کہ گلی سے نکلنے پر پابندی نہیں داخلے پر پابندی ہے۔ پھر اللہ مغفرت نصیب کرے میرے والد نے میری جان چھڑائی اور مجھے گھر لے کر گئے۔

 

1992 کے فسادات سے قبل شہر میں شیعہ سنی کا کوئی تصور نہیں تھا جس علاقے میں میری رہائش تھی وہاں پر شیعہ اور سنیوں و بریلویوں کی مساجد تھیں۔ کبھی کسی نے کسی بھی مسجد میں نماز سے نہیں روکا۔ جب محرم آتا تھا تو سب سے زیادہ سنی ہی اس میں شرکت کرتے تھے۔ ہر جگہ شربت کی سبیلیں ہوتی تھیں۔ ہر قسم کے پکوان کھانے کو ملتے تھے، حلوہ پوری سے لے کر کباب روٹی ‘ نان مسور اور چاول تو ہر جگہ۔ نویں اور دسویں محرم کو ہم اپنی جیب میں صرف چمچ لے کر گھومتے تھے کیونکہ کھیر ہر جگہ مل جاتی تھی اور اس کو کھانے کے لیے چمچ نہیں ہوتے تھے۔

لوگ چندہ جمع کرکے شربت بنا کر لوگوں کو پلاتے تھے۔ نیاز و خیرات ہر جگہ اور ہر کوئی اپنے بس کے مطابق جاری رکھتا۔ قصہ خوانی بازار کے آغاز پر اقبال بیکری (جو اب ختم ہو گئی ہے) کے سامنے سیکڑوں دیگوں کی نیاز ہوتی۔ لوگ آتے تھے اور کھاتے تھے۔ اب کے جیسا کرفیو کا ماحول نہیں تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ محرم میں ہمارے قریبی رشتہ دار ہمارے چھوٹے سے گھر آ جاتے تھے۔ چھتوں اور کھڑکیوں سے جلوس دیکھتے۔ اس وقت سنی شیعہ کی تقسیم نہیں تھی اگر یہ کہا جائے کہ شیعہ لفظ ہی 1992 کے بعد شہر میں استعمال ہونا شروع ہوا کیونکہ اس سے پہلے انھیں حسینیان کہا جاتا تھا۔

میری نانی اسے محرم کے بجائے حسینیان کا مہینہ کہتی تھی۔ راسخ العقیدہ سنی ہونے کے باوجود محرم کا احترام بھی کیا جاتا اور اہتمام بھی۔ ہمیں ٹی وی لگانے اور گانے سننے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ میرے گھر میں پنج سورۃ کے ساتھ ”جنگ نامہ” بھی ہوتا تھا۔ جنگ نامہ کربلا کے واقعہ کا منظوم کلام ہے۔ لوگ اس کو پشتو میں پڑھتے تھے اور آل نبی کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ ہر گھر کی طرح ہمارے گھر میں بھی کھیر پکتی تھی اور چاول بنانے کے لیے قربانی کا گوشت اسٹور کیا جاتا اور دسویں کے دن چاول قربانی کے گوشت کے ساتھ بطور احترام بنائے جاتے تھے۔

لیکن 1992 کے ایک معمولی واقعے نے سب کچھ بدل دیا۔ پھر اس کے بعد شہر سے محبت، رواداری اور باہمی احترام کی فضاء ختم ہو گئی۔ دونوں طرف سے شہر کئی اہم لوگوں سے محروم ہو گیا۔ چاہے وہ درویش مولانا ہو یا ڈی آئی جی فاروق حیدر ۔ شہر نے ایک کشت و خون کا منظر دیکھا جو لوگ پہلے ایک دوسرے کے قریب تھے وہ دور ہو گئے۔ اب بھی شہر میں خوف کا ماحول ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شہر میں کرفیو لگا ہوا ہے۔ اسی اندرونی لڑائی نے پھر ان لوگوں کو بھی شہہ دی جو اصل میں امن اور ملک کے دشمن تھے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشاور شہر اور اس کے باسیوں نے بہت بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ آرمی پبلک اسکول تو اس شہر کے دل پر ایسا کاری وار ہے جو صدیوں تک یاد رہے گا۔ جب اسکول کے معصوم بچوں کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے نشانہ بنایا گیا اور بچوں کو بے رحمی سے شہید کیا گیا ایسے کئی واقعات اب بھی شہر کے باسیوں کو یاد ہیں۔ ہماری مسجدوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسکول، اسپتال، بازار، خواتین، مرد، بچے، بوڑھے کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی کہ وہاں پرعام انسانوں کا خون نہیں بہایا گیا ہو۔ اسی لیے تو پھولوں کے حوالے سے مشہور شہر پشاورکو بموں کا شہر کہہ کر پکارا گیا۔

لیکن اس شہر کے شہری اس دہشت گردی کے ماحول سے خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے دہشت گردی کا جواب دینے کے لیے اپنے کسی بھی معمولات زندگی کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ دنیا اب بھی پشاور کے شہریوں کو دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دینے پر بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

اب جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل ہو چکی ہیں شہر میں امن و امان کی حالت بہت بہتر ہو گئی ہے تو ہمیں ایک قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت پھیلانے والے تصادم کو پھن پھیلانے سے پہلے ہی اپنی گرفت میں لینا چاہیے۔ کوئی بھی چاہے کسی بھی فرقے کا ہو اور کتنی ہی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو۔ نفرت پھیلانے سے باز رکھنا چاہیے۔

ایسے مقام اور جگہوں کی مکمل نگرانی کرنی چاہیے جہاں سے شر کا خدشہ ہو تاکہ کسی کو شہر کا امن خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔ شہر میں باہمی رواداری اور اپنے ماضی کی طرف لوٹنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔

علماء کا کردار اہم ہے لیکن نوجوان بھی اس میں ایک بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ شہر کے بہت سے غیر متنازعہ لوگوں پر مشتمل ایک نگران کمیٹی کی ضرورت ہے جس میں تمام مکاتب اور شعبوں کے لوگ شامل ہوں جو شہر میں رواداری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کر سکیں جو گڑبڑ کرنا چاہتے ہیں اور آخری بات پشاور شہر کو بھی آرائش اور زیبائش کی ضرورت ہے۔ پشاور کی خوبصورتی والے منصوبے میںاب تک اندرون شہر کو وہ اہمیت نہیں مل سکی ہے۔ بے ہنگم عمارتیں اور کمرشل ازم اندرون شہر کے تاریخی ورثے کے لیے زہر قاتل ہے۔

اگر لاہور کے اندرون شہر میں گلیات دوبارہ پرانے طرز پر خوبصورت بنائی جا سکتی ہیں تو پشاور بھی کسی سے کم نہیں اور اس میں ہمارے متحرک کمشنر ریاض محسود اور نوجوان وزیر کامران بنگش ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں پرانا پشاور واپس چاہیے کوئی تو ہماری مدد کرے۔

بشکریہ ایکسپرس