علم سیاست کیا ہے؟

طلبا کی رہنمائی کے ضمن میں آج کا کالم ’’علم سیاست کیا ہے‘‘ کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ وہ عمل جس کے ذریعے سماجی نظام میں اجتماعی طاقت اور اختیار پیدا کرکے معاشرے کو منظم رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے سیاست ہے۔

ریاست کو افراد کا منظم اجتماع (آبادی) کہا جاسکتا ہے جو مخصوص علاقے میں رہائش پذیر ہوں۔ بیرونی تسلط سے آزاد ہوں اور ان کی اپنی منظم حکومت ہو۔ ریاست کے چار لازمی عناصر آبادی، علاقہ، حکومت اور اقتدار اعلیٰ ہیں ان میں سے کوئی ایک کم ہو جائے تو اکائی ریاست نہیں کہلائی جاسکتی۔ حکومت ریاست کا تیسرا لازمی عنصر ہے۔ حکومت ریاست کا وہ ادارہ ہے جو ریاست کے اعلیٰ اختیارات کا استعمال کرتا ہے۔

ریاست کا چوتھا عنصر اقتدار اعلیٰ ہے۔ یہ وہ اعلیٰ اختیار ہے جس کی بنیاد پر وہ قانون کا موثر طور پر نفاذ کرتی ہے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں طاقت کا استعمال کرنے کی مجاز قرار پاتی ہے یعنی اس کے ذریعے ریاست اپنے احکامات جبری طور پر منوا سکتی ہے۔

ریاست کے نظریات کے حوالے سے ایک نظریہ یہ ہے کہ ریاست کو فرد یا افراد پر فوقیت حاصل ہے افراد کو ریاست کے احکامات کی غیر مشروط اطاعت کرنی چاہیے افراد کو ریاست پر تنقید کا کوئی حق نہیں ، فسطائیت (فاش ازم) نازیت (نازی ازم) اشتراکیت (سوشلزم) اور اشتمالیت (کمیونزم) اس کی مثالیں ہیں۔

نظریات کے حوالے سے ریاست کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ فرد ریاست سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ریاست افراد سے بنتی ہے افراد کے بغیر ریاست کی کوئی حیثیت نہیں، جس طرح نظریات کے حوالے سے ریاست کی مختلف اقسام ہیں اسی طرح نظریات کے حوالے سے حکومت کی بھی مختلف اقسام ہیں۔ اس میں سب سے قدیم قسم بادشاہت ہے۔ بادشاہت ایسے فرد واحد کی مطلق العنان حکومت کو کہتے ہیں جس کی رائے دوسری تمام آرا پر فوقیت رکھتی ہو۔ وہ سیاہ سفید کا مالک ہو اور حکومت کے تمام شعبے اس کے حکم پر کام انجام دیتے ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں۔

اشرافیہ حکومت کی وہ قسم ہے جس میں ایک مخصوص طبقے کے چند افراد کو بعض امتیاز کے سبب حکومت کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اس نظام میں بیورو کریسی کے علاوہ اگر مذہبی اشرافیہ کو حکومت کا حق حاصل ہو جائے تو ایسی حکومت کو تھیورو کریسی کہتے ہیں۔ آمریت جابرانہ حکومت کو کہتے ہیں۔

جمہوریت:جمہوری حکومت ایسی حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں ہر شخص کو حکومتی معاملات میں شرکت کا حق حاصل ہو۔ بقول امریکی صدر لنکن ’’جمہوریت عوام کے ذریعے، عوامی مفادات کے لیے عوام ہی کی حکومت کو کہتے ہیں۔‘‘ تنظیمی ڈھانچے کے اعتبار سے حکومت کی مختلف اقسام ہیں۔

وحدانی طرز حکومت ایسی حکومت کو کہتے ہیں جس میں ملکی نظم و نسق ایک ہی مرکزی حکومت کے زیر اثر ہوتا ہے اگرچہ انتظامی سہولت کی خاطر مقامی ادارے قائم کر دیے جاتے ہیں لیکن تمام اقتدار اور اختیارات ایک ہی مرکز کے پاس ہوتے ہیں۔وفاقی طرز حکومت ایسا نظام حکومت ہے جس میں دستور کے ذریعے حکومت کے اختیارات مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ اختیارات میں دونوں حکومتیں آزاد ہوتی ہیں۔

نیم وفاقی طرز حکومت (کنفیڈریشن ) خود مختار ریاستوں کے مابین ایک ایسا اتحاد ہے جسے وہ اپنے داخلی اور خارجی اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کے لیے اختیار کرتی ہیں اس اتحاد کا تعلق شہریوں کے بجائے متعلقہ ریاستوں سے ہوتا ہے۔

صدارتی طرز حکومت:صدارتی طرز حکومت وہ حکومت ہوتی ہے جس میں اصل انتظامی اختیارات منتخب صدر کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ صدر اپنے تمام اختیارات کو آزادانہ طور پر استعمال کرنے کا مجاز ہوتا ہے جو اسے دستور (آئین) نے عطا کیے ہوں۔

حکومت کے تین شعبہ جات ہیں، مقننہ (مجلس قانون سازی)، عاملہ (انتظامیہ) اور عدلیہ شامل ہیں۔ مقننہ یا مجلس قانون سازی حکومت کا اہم شعبہ ہے اس کا سب سے اہم فریضہ بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تقاضوں کیمطابق قوانین بنانا اور پرانے قوانین کو نئے حالات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ عرب میں اسے مجلس شوریٰ، انڈیا میں لوک سبھا، امریکا میں کانگریس، برطانیہ میں پارلیمنٹ اور پاکستان میں قومی اسمبلی کا نام دیا جاتا ہے۔

عاملہ: (انتظامیہ) حکومت کا دوسرا اہم شعبہ ہے اس شعبے کو قانون کے مطابق ملک چلانے کا اختیار ہوتا ہے۔ خالص سیاسی اصطلاح میں اس کا اطلاق ان چند افراد پر ہوتا ہے جو انتظامی پالیسی کو نافذ کرنے کے اصل ذمے دار ہوتے ہیں انھیں سول ملازمین کہا جاتا ہے۔

سرکاری افسران کا وہ طبقہ جو حکومتی مشینری پر اثرانداز ہوتا ہے اسے افسر شاہی کہا جاتا ہے عدلیہ حکومت کا تیسرا اہم شعبہ ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جو یہ دیکھتا ہے کہ قانون سازی اور نفاذ قانون کے معاملے میں کوئی تنازع پیدا ہو جائے کہ یہ کام قانون کے مطابق ہے یا نہیں، اس تنازع کے فیصلے کا اختیار جس ادارے کو ہوتا ہے اسے عدلیہ کہتے ہیں۔جمہوریت میں رائے عامہ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ ایک حقیقی جمہوری نظام میں دو یا دو سے زائد سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔

سیاسی جماعتیں رائے عامہ کے ذریعے عوام کو اپنا حمایتی بناتی ہیں اور انتخابات جیت کر ملک پر حکومت کرتی ہیں۔ جمہوری ریاستوں میں سیاسی جماعتوں کو ان کے اغراض و مقاصد اور بنیادی فلسفے کے لحاظ سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ رجعت پسند جماعتیں یہ جماعتیں جدیدیت کے خلاف ہوتی ہیں ۔ قدامت پسند جماعتیں۔ یہ جماعتیں ملک میں رائج نظام کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔

ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی مخالفت کرتی ہیں۔ ترقی پسند جماعتیں دستوری طور پر اصلاح اور آزاد خیالی کی حامی ہوتی ہیں اور ارتقا کے ساتھ تبدیلی اور ترقی کی خواہاں ہوتی ہیں۔

لبرل جماعتیں ، یہ وہ جماعتیں ہیں جو ریاست میں مذہب کے معاملے میں ایک حد تک لچک دار طرز عمل اپناتی ہیں اور میانہ روی کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ سیکولر جماعتیں وہ جماعتیں ہیں جو مذہب کی براہ راست مداخلت کو کسی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ یہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ ریاست کو فرد کے ذاتی معاملات جو دوسروں کے لیے نقصان دہ نہیں اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ انقلابی جماعتیں ملک میں قائم اداروں کو یکسر بدل دینا چاہتی ہیں وہ ملک میں نیا سیاسی اور اقتصادی نظام لانے کی خواہاں ہوتی ہیں۔

خیال رہے کہ رجعت پسند اور قدامت پسند جماعتوں کے لیے دائیں بازو کی جماعتیں اور آزاد خیال اور انقلابی جماعتوں کے لیے بائیں بازو کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ سیاست اور قانون دونوں علوم میں بہت سے موضوعات مشترکہ ہیں اس لیے آیندہ کالم قانونی اصطلاحات کے حوالے سے تحریر کیا جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ آج