علم کے فروغ میں ترجمے کی اہمیت

زبانیں چند ماہر لسانیات، ادیب اور دانشوروں کے ہاتھوں کسی شعوری کوشش سے وجود میں نہیں آتیں یہ قدرت کی طرف سے ایک عطا ہے جو صدیوں کے تاریخی عمل اور سماجی رابطوں کے ذریعے وجود میں آتی ہیں۔ ترجمہ کا تعلق بھی زبان سے ہے کسی تحریر، تصنیف اور تالیف کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ترجمہ کہلاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک انسان جس قدر آسانی سے اپنی زبان میں علوم سمجھ سکتا ہے دوسری زبان میں اسے سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علم یا دریافت کسی قوم کی میراث نہیں ہوتے بلکہ پوری نسل انسانی اس سے مستفید ہوتی ہے۔

ایسے حالات میں ترجمہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ترجمے کے ذریعے ایک قوم دوسری قوم کے علم و ادب کے ذخیرہ سے آشنا ہوتی ہے ترجمہ نہ صرف زبان کی سطح پر ہی انسانی علوم میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ یہ عمل ذہنی کشادگی میں بھی اضافے کا ذریعہ بنتا ہے، اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم کے فروغ میں ترجمہ کی بڑی اہمیت ہے۔

بہترین ترجمہ کی اگر خوبی کا ذکر کیا جائے تو بہترین ترجمہ وہ ترجمہ ہے جس کو پڑھ کر ایسا معلوم ہو کہ وہ ترجمہ نہیں ہے بلکہ اصل تحریر ہے۔ اس حوالے سے ہمارے یہاں اچھے اورکامیاب ترجموں کا فقدان نظر آتا ہے۔ بیشتر کتب بالخصوص سائنسی علوم کی جو کتب ترجمہ کی گئی ہیں وہ عام فہم تو دورکی بات ہے فہم سے ہی بالا تر ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ یہ کتب ہمارے طلبا میں پذیرائی حاصل نہ کر سکیں۔ سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ اس قدر ثقیل ہے کہ طلبا کو اس کو سمجھنا اور یاد رکھنا ناممکن ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک اچھے ترجمے کے ضمن میں ہمیں کیا مشکلات ہیں جس کے باعث ہم ناکام ہوئے ہیں۔ آئیے! اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

ترجمہ ایک مشکل فن ہے۔ دوسری زبانوں سے صرف الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی روح کو بھی دوسری زبان میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔

سائنسی اور علمی موضوعات کا ترجمہ کرتے ہوئے اہم مرحلہ اصطلاحات کے ترجمہ کا ہے۔ اس حوالے سے ہم اب تک یہ طے نہیں کر پائے کہ انگریزی اصطلاحات کو ہر صورت میں بدلنا ہے یا ویسے ہی استعمال کرنا ہے۔ بعض اصطلاحات اتنی عام فہم ہیں کہ ان کو کسی بھی زبان میں ڈھالا جاسکتا ہے مگر بعض اصطلاحات ایسی ہیں جوکہ ترجمہ نہیں ہو سکتیں مثلاً سائنسی قوانین، سائنسی فارمولے، کیمیائی اشیا کے نام، ادویات کے نام وغیرہ۔ ہمارے بعض عناصر ہر لفظ کا ترجمہ چاہتے ہیں یہ فکری اختلاف ترجمے کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں اس پر غورکرنا چاہیے۔

ادب کا ترجمہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ادبی تحریر میں تہذیبی سیاق و سباق کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ ورنہ تحریر کا مزاج ترجمے میں نہیں آتا۔ ادب میں ادبی اوصاف بالخصوص علامتوں کی باریکیاں ترجمے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ جس طرح موسیقی کو تحریر میں نہیں لایا جاسکتا اسی طرح شاعری کا ترجمہ بھی مشکل ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے انگریزی اور یورپی زبانوں کے الفاظ پہلے سے ہی اردو زبان میں شامل ہو چکے ہیں مثلاً کرنل، جنرل، کپتان وغیرہ۔ یہ غیر زبانوں کے الفاظ اردو کا حصہ بن گئے ہیں ان کو تبدیل نہ کریں بلکہ اسے اردو کے ذخیرہ میں شامل کر لیں۔

غیر مانوس اور اجنبی ترجموں سے گریزکریں، سائیکل کے لیے پیرگاڑی جیسے الفاظ بنانے سے گریز ضروری ہے۔ اسکیم، پلان، پروجیکٹ کا ترجمہ منصوبہ کیا جاتا ہے اسی طرح کمیٹی، بورڈ، اسمبلی، سینیٹ کے الفاظ کا ایک لفظ مجلس سے کیا جاتا ہے۔ مذہبی اجتماع کو بھی مجلس کہتے ہیں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ان تمام الفاظ کے الگ الگ تصورات ہیں ان کو کس طرح واضح کیا جائے اس کا حل یہ ہے کہ اصل انگریزی الفاظ بولنے اور لکھنے میں کوئی مشکل نہ ہو تو ان کو اردو میں رائج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ہمارے قومی اور عوامی مزاج میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ اگر کسی شعبے سے وابستہ شخص کو نائی، دھوبی اور بڑھئی وغیرہ کہہ کر پکارا جائے تو وہ ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے لیکن ان الفاظ کے بجائے اسے ڈرائی کلینر، ہیئر ڈریسر اورکارپینٹر کے الفاظ سے پکارا جائے تو وہ کوئی ردعمل نہیں دیتا، اس کا مطلب ہے کہ عام لوگ بھی عزت و تکریم اور مرتبہ لفظ انگریزی سے وابستہ کیے ہوئے ہیں ان الفاظ کے استعمال پر اعتراضات نہیں کیے جانے چاہئیں۔

کاروباری زبان کے مقابلے میں قانون کی زبان بڑی محتاط ہوتی ہے، اس میں ایک علامت کا ادھر اُدھر ہونے سے مفہوم میں فرق آ جاتا ہے۔ قانون کی اصطلاحات کے ترجمے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

انگریزی اصطلاحات کے ترجمے کا کام ہر شخص کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا اس سے زبان میں الجھاؤ اور انتشار پیدا ہوتا ہے ایک کتاب میں ایسڈ کو تیزاب اور دوسری کتاب میں تراشہ لکھا ہوا ہے اس لیے ایک اتھارٹی ہونی چاہیے جسے اصطلاحات سازی کا اختیار ہو۔ممکن ہے کہ ان تجاویز کی صورت میں یہ الزام آئے کہ اس طرح اردو دوغلی زبان کا روپ دھار لے گی۔ یاد رکھیں ہر زبان اپنے اندر ایک طاقت رکھتی ہے اگر کسی اجنبی اور غیر مانوس الفاظ کو اس میں زبردستی داخل کیا جائے تو وہ اسے قبول نہیں کرتی بلکہ رد کر دیتی ہے۔ چاہے وہ زبان اردو ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے ہمیں اس حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔

علم کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ترجمہ کو فروغ دیا جائے۔ ہمارے یہاں اس شعبے کو غیر اہم شعبہ تصورکیا جاتا ہے۔ یہ تاثر ہے کہ جو اہل قلم اپنی علمی اور ادبی تخلیقات پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں وہ دوسروں کی لکھی ہوئی چیزوں کو اپنی زبان میں ترجمے کا کام انجام دے کر دراصل خود کو اہل قلم کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ تاثر بالکل غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے نامور ادیبوں اور دانشوروں نے اس کام کو انجام دیا ہے۔ ایک مغربی ادیب نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہر ادیب کے لیے لازم ہے کہ عالمی ادب کا کم از کم ایک شاہکار اپنی زبان میں منتقل کرے۔ ہمارے اہل قلم حضرات کو اس بات پر غور ضرور کرنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ آج