225

بھتہ خوری ! اب اور نہیں ۔ 

بھتہ خوری اصل میں دھمکی طاقت کا غلط استعمال ، تشدد یا ہراساں کر کے غلط  ذریعے سے کسی دوسرے سے جائیداد ، بھاری رقم یا دیگر قیمتی زرمبادلہ عام طور پر متاثرہ شخص یا املاک کو دھمکی دے کر حاصل کرنا ہے، اس میں جسمانی نقصان، املاک کو نقصان، ساکھ کو نقصان، مجرمانہ الزامات، یا بدنام کرنا  شامل ہو سکتا ہے۔ بھتہ خوری دراصل بلیک میلنگ کے مترادف ہے۔
بھتہ خوری FIA کےمطابق سائبر کرائم کے جرائم میں سے ایک ہے،جس کی واردات دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہے جس میں بھارت ، برطانیہ، امریکہ، پاکستان ، بنگلادیش اور دیگر ممالک شامل ہیں , اور ہر ملک نے اپنے قانون کے مطابق اس سنگین جرم کی سزا کا طعین کیا ہے،پاکستان میں بھی اس دہشتگردانہ جرم کو پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 383 کے مطابق: جو شخص جان بوجھ کر کسی بھی شخص کو ( جانی، معاشرتی بدنامی،اغواکاری) جیسے نقصان پہنچانے کے خوف میں حراساں کرتا ہے، اور اس شخص سے جائیداد یا قیمتی زرمبادلہ  یا اہم کاغذات دستخط شدہ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، "بھتہ خوری" کا مرتکب قرار دیا گیا ہے ۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 384 کے مطابق: بھتہ خوری کا ارتکاب کرنے والے کو قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال یا اس سے زیادہ  تک ہوسکتی ہے یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی.
 بھتہ خوروں کے تعلقات اور روابط بیشتر طور پر دہشتگرد گروپوں کی فنڈنگ سے جڑتے ہیں ۔ اگر اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے بڑے شہروں بالخصوص پشاور اور کراچی  میں تاجروں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے دھمکی آمیز پرچی، کال یا میسج بھیجا جاتا ہے، جس کی کڑیاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ، بی این اے، داعئش اور بی ایل اے سے جا کر ملتی ہیں ۔ تاجروں اور دیگر بڑی شخصیات  کو فون کر کے دھمکیاں دی جاتی ہیں  تاکہ ان سے بھتہ وصول کیا جا سکے۔ 2014 میں پاکستانی فوج کی جانب سے ملک کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے  آپریشن شروع کیا گیا جس کے خوف سے، ملک دشمن عناصر  نے سرحد پار کر کے افغانستان کے علاقے  کنڑ اور ننگرہار کے قریب  افغان طالبان کی مدد سے ٹھکانے قائم کر لیے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک رہنما نے کہا، 'اس کے بعد سے، سینکڑوں تاجر اور متمول لوگ افغان نمبروں سے دھمکی آمیز کالیں موصول ہونے کے بعد ٹی ٹی پی کو بھتہ کی بھاری رقم ادا کر رہے ہیں،' سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک رہنما نے کہا، اگر تاجر بھتہ وصولی کی رقم دینے سے انکار کرتے ہیں تو بھتہ خور ان کے گھروں کے قریب چھوٹے بم رکھ دیتے ہیں تاکہ انہیں خوفزدہ کر کے اپنے مطالبات تسلیم کرا لیں۔ اگر وہ انکار کرتے رہتے ہیں تو بھتہ خور یا تو انہیں سرعام قتل کر دیتے ہیں یا ان کے گھروں پر بمباری کر دیتے ہیں یا ان کے خاندان کے افراد کو اغواء کر لیا جاتا ہے. اس کے علاوہ بھتہ خور بعض اوقات مطلوبہ شخص کو گولیوں کے ساتھ خط بھیجتے ہیں، تاکہ ممکنہ حد تک دہشت پھیلائی جا سکے۔  اس گھناؤنے دھندے کا شکار  صرف تاجر ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں ، انہیں یا تو بھاری رقم  ادا کرنے یا دوسری جگہ منتقل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بھتہ خوروں کی حوصلہ افزائی بیشتر طور پر تب ہوتی یے جب وہ اپنے ہدف کے تعاقب میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اگر انہیں اپنے جرم کی ادائیگی ملتی رہے، تو وہ مستقبل میں دوسرے متاثرین کو نشانہ بنا لیتے ہیں ۔  لہذا متاثرین کو ایسے جرائم کی اطلاع اپنے مقامی حکام کو فوری طور پر کرنی چاہیے .
حال ہی میں سوات کے علاقہ مکینوں کو بھی مبینہ طور پر بھتہ خوری کی کالیں موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں جس سے لوگ کافی پریشان ہیں اور پہ در پہ واقعات جس میں حال ہی میں ، سوات کے علاقے باڑہ بانڈئی میں ایک "ریموٹ کنٹرول" دھماکے میں جان کی بازی ہارنے والے پانچ افراد جن میں ایک امن کمیٹی کے رکن اور اس کے پولیس گارڈز شامل تھے، جو کہ کافی عرصے سے دہشتگردوں کے نشانے پر تھے، کی کڑیاں بھی بھتہ خوری کے بدبو دار جرم سے ملتی ہیں ۔لہذا آسانی سے اعصاب شکن ہو کر دہشتگردوں اور دیگر تنظیموں کے بھتہ خوری کے مطالبات کو تسلیم نہ کریں بلکہ فوری طور پر اپنی حفاظت مقدم رکھتے ہوئے ایف آئ اے یا دیگر ہیومن رائٹس پروٹیکشن کی تنظیموں سے رابطہ کریں ۔
مزید بہتر اور بروقت کاروائی کے لیے پاک فوج کی ہیلپ لائن نمبر 1125 پر بھتہ خوری کی شکایت درج کرائی جا سکتی ہے، پاک فوج مکمل طور پر تعاون فراہم کرے گی اور متاثرہ شخص کے نام اور دیگر  معلومات کو مکمل  سیغہ راز میں رکھا جائے گا ۔
قوانین کا مقصد آپ کو تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ آپ کو ہراساں نہ کیا جائے۔ ابتدائی رپورٹ بروقت کارروائی کا سبب بنتی ہے۔

بشکریہ اردو کالمز