455

احساس برتری

انسان اس روۓ زمین پر قدم رکھنے کے بعد عزت، شہرت اور نام کمانے کے لٸے دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور کچھ لوگ تو محنت کر کےاپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں اور دنیا میں ایک مقام حاصل کرتے ہیں اس کے برعکس کچھ لوگ غرور اور اکڑ میں آکر مختلف نفسیاتی اور ذہنی مرض کا شکار ہوتے ہیں احساس برتری عموماً ان لوگوں میں پاٸی چاتی ہیں۔

اگر ہم بات کریں احساس برتری کی تو یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو تکلیف دے کر یا تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور یہ بڑے سخت مزاج لوگ ہوتے ہیں ہر ایک سے بالاتر ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو حقیر سجھتے ہیں ہر وقت اپنا لوہا منواتے ہیں اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے اور دوسروں کی غلطیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں. دوسروں کی اچھاٸیوں اور خوبیوں میں بھی نقص تلاش کرتے ہیں اپنی براٸیوں کو چھپاتے ہیں ہر وقت اپنی من مانی کرتے ہیں چڑچڑا پن اور غصے میں رہتے ہیں ایسے لوگوں کو معاشرے میں ُبری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں یہ لوگ آگے جا کر سب کچھ کھو دیتے ہیں 

احساس برتری کے شکار لوگ جو کام کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اگر وہی کام کوٸی دوسرا کرے تو اُس پر ہزار باتیں بناتے ہیں کہ یہ کام ناجائز اور غلط ہے
یہ ایک ایسی وبا ہے جو نسلوں اور قوموں کو برباد کر دیتی ہے اور اس طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں اکثر پاۓ جاتے ہیں
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے مختلف نفسیاتی بیماریوں کا باقاعدگی سے علاج کیا جاتا ہے تاکہ اس معاشرتی وبا سے چھٹکار حاصل کیا جاسکے
 ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں کسی کی  کاميابی کو  داد دینا تو بڑی بات ہے بلکہ انکی کاميابی ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔ انسان فطرتاً تو احساس برتری کا شکار نہیں ہوتا،
حالات اور ماحول اُیسے بنا دیتے ہیں. 
 انسان یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ جتنی محنت کریگا  اللہ تعالٰی اُس سے بڑھ کر اُسے اپنی نعمتوں سے نوازے گا چاہے وہ  عزت،ذلت،  دولت اور شہرت کیوں نہ ہو  اسی لیے انسان بغض، تکبراور احساس برتری جیسے غلیظ وبا سے اپنی سوچ کو پاک رکھے اور معاشرے میں ایک ایسا کردار ادا کرے کہ لوگ انکی غیر موجودگی میں انکی مثاليں دیں اور دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی انہیں اچھے لفظوں میں یاد رکھیں کیونکہ دنیا سے تو سب ہی رخصت ہوتے ہیں مگر یاد انکو کیا جاتا ہے جنہوں نے سماج کی بہتری کے لٸیے قربانیاں دیں.
 

بشکریہ اردو کالمز