597

ویڈیو گیمز اور ہمارا نوجوان

دنیا بھر میں جہاں بھی کوئی شے تخلیق یا ایجاد کی جاتی ہے۔ اس پر تمام انسانیت کا یکساں حق ہوتا ہے۔چاہے وہ ادویات ہو،فریج ہو، ٹی وی ہو یا موبائل اور اس کے ساتھ منسلک باقی ایپ لیکشنز ہو۔اس کے بنانے والوں کا ہمیشہ یہ خیال رہا رہاکہ یہ تمام چیزیں انسانوں کے لئے مفید ثابت ہوکر ان کے لیے  زندگی کے سفر میں معاون ثابت ہوگی۔لیکن انسان نے ہمیشہ ان اجزاء کا غلط استعمال کیا جس کے نتیجے میں بے پناہ مسائل پیدا ہوئے،اور پیدا ہو رہے ہیں۔چاہے وہ ادویات کا گنہونا کاروبار ہو،ٹی وی سے پھیلنے والے خرافات ہو یا موبائل فون سے پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل ہو یہ تمام مسائل معاشرے میں موجود سرکش عناصر کی وجہ سے باقی ابن آدم  کو منتقل ہوتے ہیں۔
پاکستان میں جہاں ہمیں باقی معاشرتی برائیوں کا سامنا تھا اور نوجوان طرح طرح کے خطرناک عادتوں میں مبتلا تھے۔ وہاں ایک نئے مسئلےنے ہمارے دروازے پر دستک دی،وہ مسئلہ/ بیماری کوئی اور نہیں بلکہ PUBG  نامی  ایک گیم ہے. جیسے Player Unknown's Battlegrounds کہتے ہیں. یہ گیم PUBG کارپوریشن نے 20 دسمبر 2017 کو لونچ کیا۔PUBG کورپوریشن جنوبی کوریا کی ایک آن لائن گیمزکی کمپنی ہے۔جنہوں نے یہ گیم متعارف کروایا۔جبکہ 2018 سے 2019 کے درمیان یہ گیم پاکستان میں بھی نوجوانوں کے سامنے متعارف کروایا گیا۔ جس کے بعد یہ پورے ملک کے نوجوانوں میں اس مرض کا شوق آ گ کی طرح پھیل گیا۔ تقریبا تمام ممالک کے نوجوان اور کم عمر بچے اس گیم کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ان  میں انڈیا پہلے نمبر پر، یونائیٹڈ سٹیٹ دوسرے، چائنہ تیسرے، روس چوتھے،جرمنی پانچوایں،جنوبی کوریا چھٹے، برطانیہ ساتھویں۔ جبکہ اس کے علاوہ پاکستان میں بھی لاکھوں نوجوان اور کم عمر بچے اس معاشرتی برائی کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نے اب اس گیم پر پابندیوں کا آغاز کر دیا۔ کیونکہ ان ممالک کو اس گیم کے نقصانات کا پتہ چلنا شروع ہو گیا۔ انڈیا کے کچھ شہروں میں اس گیم کو بند کرنا شروع کر دیا ہے، اور اس کے ساتھ  یونیورسٹیز کو مراسلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ تمام ہاسٹلز کے وارڈنز کو حکم دیا کہ وہ اس حوالے سے سٹوڈنٹس کی نقل و حرکت کو مونیٹر کرے۔ اس کے علاوہ عراقی حکومت نے PUBG  پر پابندی لگاتے ہوئے کہا کہ یہ گیم نوجوان نسل کے لیے مہلک ثابت ہوسکتا ہے، جبکہ چائنا اور نیپال نے نے بھی اس کو بند کرنا شروع کر دیا۔
    طبی ماہرین کے مطابق PUBG استعمال کرنے والے نو جوان اور کم عمر بچے7 اقسام کے خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔1)انسان میں چڑچڑاپن کا آجانا.2) چرس اور افیون کی طرح اس گیم کا عادی ہوجانا۔3) معاشرے سے علیحدہ ہو کر خود کو ایک کمرے تک محدود کرنا.4) زیادہ استعمال کی وجہ سے آنکھوں کا متاثر ہونا اور کمر کا جھک جانا.5) نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جانا۔6) زندگی کے باقی امور سرانجام دینے کی بجائے خود کو گیم تک محدود کر دینا۔7) ذہن  میں دہشت اور مار دھاڑ کے سوچ کا پنپنا۔ اس کے ساتھ کئی نوجوان اس گیم کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کچھ دن پہلے کراچی کے علاقے ملیر میں والدین کے منع کرنے پر نوجوان نے خودکشی کر لی۔ جبکہ میرا ذاتی مشاہدہ رہاہےکہ جب بہت سارے والدین نے اس گیم کو کھیلنے سے منع کیا تو تمام بچوں نے  کھانا پینا چھوڑ کر بھوک ہڑتال پر چلے گئے۔ میں نے ایسے بچوں کو بھی دیکھا،جو موبائل پر PUBG اور باقی گیمز کھیلنے کی وجہ سے کمر اور آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہوئے۔
  ایک طالبعلم ہونے کے ناطے میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ہمارے نوجوان نسل کو اس گیم کے ذریعے برباد کیا جا رہا ہے۔تاکہ تمام نوجوان معاشرتی مسائل سے غافل ہوکر علیدگی پسند بن جائے۔اس گیم سے وابسطہ کئی نوجوانوں سے میں نے بات کرنے کی کوشش کی،کہ اس گیم کے کھیلنے سے کیا فوائد آپ کو حاصل ہو رہے ہیں؟۔ وقت کو بھی ضائع کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ماں باپ کی کمائی کو بھی آگ لگائی جا رہی ہے۔ میرے تمام دوست ٹھوس فوائد بتانے میں ناکام رہے۔اگر آپ حضرات اس گیم کا بغور جائزہ لے کر کسی نتیجے پر پہنچے، تو ہمارے آنکھوں کے سامنے ایک ہی ریزلٹ ہوگا گا کہ "نوجوانوں کو پرتشدد ذہنیت کا عادی بنا کر مار دار کی طرف راغب کرنا ہے اور ان کو قتل و غارت گری پر اکسانا" میرے کئی دوست مجھے طعنے دیتے ہیں۔ اس گیم کے نہ کھیلنے کی وجہ سے،بہرحال میں اس تنقید کا مثبت جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ بحیثیت والدین اور اسلامی ریاست کے ہم سب ناکام ہوچکے ہیں۔ ہم وہ تربیتی عمل اور اس سے وابستہ امور اپنے نوجوانوں اور بچوں کو نہ دے سکے۔جو انکی تربیت کیلئے ضروری تھے۔ لیکن جو بھی ہو جائے ہمیں اس ناکامی کو قبول کرلینا چاہیے۔ دوسری طرف اگر ہم نے بروقت اس گیم اوراس  اقسام کے باقی گیمز پر پابندیوں کا آغاز نہ کیا، تو ہم کمر کی بیماریوں اور بینائی سے محروم ایک نسل ضرور تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ایک ذمہ دار والدین کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بچوں کو اس مرض سے بچائے۔ حکومت کے فیصلوں کا انتظار کرنے کے بجائے خود ایک ذمہ دار شہری کا ثبوت دے۔ہم نے ہمیشہ ریاست کے اقدامات کا انتظار کرتے ہوئے،اپنے پیارے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔لہذا حکومت وقت جلد از جلد اس گیم پر پابندیوں کا آغاز کریں۔ تاکہ ہماری پوری نوجوان نسل اور کم عمر بچے اس سے محفوظ ہو جائے۔

بشکریہ اردو کالمز