568

پارلیمنٹ کی گرتی ہوئی ساکھ

کراچی سے خیبر تک ہر گلی اور  محلے میں پارٹی پرچموں کی بہار تھی۔ کیونکہ ملک میں نئے الیکشن کے لیے مہم اختتام پذیر ہوچکی تھی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو یہ یقین تھا کہ اسے اپنے ووٹرز مایوس نہیں کریں گے۔جبکہ دوسری طرف الیکشن کمیشن کے عملے نے تمام انتخابی سازو سامان فوج اور پولیس کی نگرانی میں متعلقہ پولنگ اسٹیشنز تک پہنچا دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام ٹیلی ویژن چینلز پر گھنٹوں گھنٹوں لائیو ٹرانسمیشن کا سلسلہ جاری تھا اور ہر شخص چاہے وہ صحافی ہو یا تجزیہ نگار اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ دعوی کر رہا تھا کہ فلاں پارٹی کو اتنی سیٹس ملیں گی اور فلاں جماعت عوامی مسائل حل نہ کرنے کی وجہ سے میدان سے باہر ہو جائیگی۔ بالآخر 25 جولائی 2018 بروز بدھ ملک بھر میں پولنگ کا آغاز ہوا جو کسی رکاوٹ کے شام تک جاری رہا (کئی جگہوں پر بدنظمی دیکھنے کو ملی جو ہمارے ملک میں اور بالخصوص اس فرسودہ نظام سے جڑی ہوئی باتیں ہیں) مختصرا سیٹوں کے لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف پہلی، مسلم لیگ نون دوسری، پی پی تیسری اور باقی جماعت خاطر خواہ کامیابی سمیٹ نہ سکی۔ جبکہ کوئی بھی جماعت دو تہائی اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ فائنل نتائج کے بعد پی ٹی آئی ایک نئی قوت اُبھر کر سامنے آئی لیکن حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی کو ایسے  گھوڑوں کی تلاش تھی جس پر چڑھ کر عمران خان اور ان کے متوالے قومی اسمبلی پہنچ کر عمران خان کو وزیراعظم بناتے۔ اس مقصد کے لیے عمران خان نے جہانگیر ترین (جو آجکل چینی سکینڈل کی وجہ سے خان صاحب سے نالاں نظر آرہے ہیں) کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی۔ جہانگیر خان ترین نے جس طرح الیکٹیبلز کو چن چن کر اپنے جہازمیں بیٹھا کر خان صاحب کے قدموں میں پیش کیا اس کی مثال نہیں ملتی حلانکہ خان صاحب ان الیکٹیبلز کے بارے میں ایسی باتیں کیا کرتے تھے اگر خان صاحب کو وہ ساری سنائی جائے تو مجھے امید ہے عمران خان اس معاملے میں بھی یوٹرن کا سہارا ضرور لیں گے۔
ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق جیسی جماعتوں کے ساتھ مل کر  عمران خان بلا آخر ملک کے 22 ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی سرکار نے ایسے اقدامات کا آغاز کیا جس سے براہ راست پارلیمنٹ کی ساکھ متاثر ہونے لگی۔(1) کابینہ میں غیر منتخب مشیروں کا لشکر(2)پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں گالی گلوچ کی بھرمار(3) وزیراعظم کی پارلیمان میں عدم دلچسپی(4) احتساب بیورو کا غلط استعمال۔ 1,اگر پوری کابینہ کا بغور جائزہ لیں تو مشیروں کا ایک لشکر نظر آئیگا چاہے وہ حفیظ شیخ ہو، عبدالرزاق داود ہو، شہبازگل ہو، ڈاکٹر ظفر مرزا یا پھر عاصم سلیم باجوہ ہو۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ یہ تمام افراد اپنی فیلڈ میں ماہر ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 75 سالوں میں ہم ایک ایسا وزیرخزانہ پیدا نہ کرسکے جو ہمیں آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات دلائے دوسری طرف ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے حکومتی نمائندے نااہل ہیں کیونکہ یہ صرف ڈائیس بجانے کے لیے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ 2,بقول سیاسی جماعتوں کے پارلیمنٹ ایک مقدس ترین جگہ ہےکیا کوئی شخص ایک مقدس جگہ میں گالی گلوچ کا سوچ سکتا ہے۔؟ لیکن جس نمائندے کو عوام اس مقصد کیلئے سلیکٹ کرتے ہیں کہ یہ پارلیمنٹ جاکر ہمارے حقوق کے لیے قانون سازی کرے گا وہی امیدوار اپنی ذمہ داری نبھانے کے بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آئیں گے (باقی ادوار میں بھی اخلاقیات کی نہریں نہیں بہہ رہی تھی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس دور میں یہ روایت بہت زیادہ پروان چڑھی) 3, خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے خان صاحب اکثر میاں محمد نواز شریف پر تنقید کیا کرتے تھے کہ میاں صاحب خود کو بادشاہ سمجھتے ہیں اس لیے وہ پارلیمنٹ نہیں آتے لیکن بدقسمتی سے خان صاحب بھی سابقہ وزراء اعظم  کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، پہلے تو خان آتے نہیں جب موصوف غلطی کرکے آ بھی جاتے ہیں تو وزیروں کا ایک لشکر آگے پیچھے موجود رہتا ہے۔ 4,اداروں کا اصل کام ریاست کو نقصان پہنچانے والے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاکر سزا دینا ہوتا ہے لیکن "نیب" واحد ادارہ ہے جو ہر حکومت اسے اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کرتی ہے. اس حکومت سے عوام یہ توقع نہیں کر رہے تھے۔ لیکن یہ حکومت بھی اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے (اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام اشرافیہ نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اور ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ملک کو مزید نقصان پہنچایا جارہا ہے)۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب "نیب" کوئی مقدمہ بناتا ہے ملزم عدالت میں بری کیوں ہو جاتا ہے یا تو مقدمہ جھوٹا بنایا گیا ہے یا عدالتی نظام بالکل ناکارہ ہے۔ یقینا ہمیں کچھ تلخ فیصلے کرنے ہونگے کہ اداروں کو کس طرف لے کر جانا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ یہ تمام ادارے کس مقصد کیلئے استعمال کرنے ہیں۔
دنیا کی تمام اقوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے افراد کا چناؤ کرتے ہیں تاکہ یہ افراد عوام کے لئے قانون سازی کریں اور ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ لیکن ہم واحد قوم ہیں جو اپنے نمائندے اسلیئے منتخب کرتے ہیں کہ یہ وزیر یا مشیر بن کر ہمیں سڑکیں،گلیاں اور نا لیاں بنا کر دیں گے۔ ہمارا یہ اجتماعی بے شعوری کا سفر مزید مسائل پیدا کر رہا ہے کیونکہ اس ملک کا نظام عوام کو آزادانہ سوچ و بچار کا وقت دینے کے بجائے معاشی بدحالی اور فرقہ وارانہ مسائل میں الجھا کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے اسی لیے عوام کو اب سوچ سمجھ کر ایسے فیصلے کرنے ہونگے اور عملی جدوجہد کے ذریعے ایک عادلانہ سسٹم کا قیام عمل میں لانا ہوگا  تاکہ وہ نظام/ سسٹم تمام انسانیت کے مسائل حل  کریں۔جبکہ ہم یعنی عوام کب تک بےشعوری میں اس امید کے ساتھ ووٹ دیتے رہینگے کہ یہ ہمارے لئے مسائل حل کر لے گا، وہ پچھلے حکمران جماعت سے زیادہ ظالم بن کر ہمارے عذاب بن جاتا ہے۔عوام کو اپنے مفاد کیلئے کچھ سخت راستوں کا انتخاب کرنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس ظالم اشرافیہ کی مظالم سے محفوظ رہے۔

بشکریہ اردو کالمز