156

گدڑی کا لعل

اُنیس سو اسّی کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ اردو زبان و ادب کے معروف نقاد اور محقق مظفر علی سیدّسے میری نیاز مندی تھی۔ عمر میں وہ مجھ سے خاصے بڑے تھے ۔ میرے غیررسمی استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ایک دن ہم دونوں لاہور کے مشہور زمانہ پاک ٹی ہاؤس میں دوستوں سے گپ شپ کرنے کے بعد مال روڈ پردیال سنگھ مینشن میںواقع ایک ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جب رات دس بجے ٹی ہاؤس بند ہوجاتا تھا تو وہ لوگ جن کی محفل آرائی سے تسلی نہیں ہوتی تھی کسی اورٹھکانے پر جا بیٹھتے ۔کچھ دوست پرانی انارکلی میں چائے خانوں کے باہر سڑک کے کنارے لگی کرسیوں پر براجمان ہوجاتے ۔ نصف شب کے بعد گھر کی راہ لیتے۔جب سیّد صاحب طویل گفتگو کے موڈ میں ہوتے تو میںبھی اُن کے ساتھ مال روڈ پرکسی اور ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھ جاتا ۔ اُن کی بصیرت افروز گفتگو سے فیض یاب ہوتا۔ مظفر علی سیّد بذات خود ایک بڑا موضوع ہیں ۔ لیکن اسوقت میں ایک ایسے بڑے آدمی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جن سے سیّد صاحب کے توسط سے مختصر سی ملاقات ہوئی۔لیکن اس کا نقش میرے دماغ سے محو نہیں ہوسکا۔ بتاتا چلوں کہ مظفر علی سیّد اُونچی ناک والے عالم فاضل آدمی تھے۔میل جول‘ گفتگو میں شائستہ تھے لیکن کسی کو آسانی سے خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ہم دونوں جب ہوٹل میں داخل ہوئے تو وہاں ایک میز پر فربہ جسم‘ پکے رنگ کے صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اورمظفر علی سیّدتپاک سے ملے۔ ہم اسی میز پربیٹھ گئے۔ تعارف ہوا کہ ان کا نام ستّارطاہر ہے۔ دونوں صاحبان ادبی معاملات پر بات چیت کرنے لگے۔ چائے کا دور چلتا گیا۔ جس احترام سے مظفر علی سیدّاُن کے ساتھ پیش آئے اور انہماک سے مکالمہ کررہے تھے مجھے اندازہ ہوگیا کہ کوئی خاص آدمی ہیں۔ بہت پڑھے لکھے‘ صائب الرائے ہیں۔ان کے ہاتھ میںایک انگریزی فکشن کی کتاب تھی ۔ مظفر صاحب نے کتاب اور اس کے مصنف ذوالفقار غوث کے بارے میں ان کی رائے پوچھی۔ ستار طاہر نے ان کی بہت تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’بھرپور‘ ہے۔یہ سب باتیں میرے دماغ میں ہجوم کرآئیںجب آج میں نے دانشور صحافی اسلم ملک کے فیس بک صفحہ پر دیکھا کہ گزشتہ جمعہ‘پچیس مارچ کو ستار طاہر کی انتیسویں برسی تھی۔ ملک صاحب کا ہنر یہ ہے کہ وہ بے شمار ایسے لوگوں کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں جو زیادہ معروف نہیں لیکن صاحب کمال تھے یا ہماری مجلسی زندگی کا اہم حصّہ رہے۔ میں اکثر ماہنامہ قومی ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں ستار طاہر کی تحریریں پڑھتا۔ وہ نئی آنے والی دلچسپ انگریزی کتابوں کی تلخیص و ترجمہ کردیا کرتے تھے۔ اردو دان طبقہ کے لیے ان کا یہ کام کسی بڑے تحفہ سے کم نہیں تھا۔ترجمہ کرنا دشوارہوتا ہے ۔ جو دو زبانوں پر یکساں قدرت رکھے وہی کرسکتا ہے۔ میرے ایک دوست ہفت روزہ زندگی سے وابستہ تھے۔ میں ان سے ستار طاہر کے بارے میں اکثر پوچھتا رہتا۔ پتہ چلا کہ وہ بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ کتابوں سے عشق ہے۔ قلم مزدوری کرتے ہیں۔ اپنی کمائی کا بیشتر حصّہ کتابیں خریدنے پر صرف کردیتے ہیں۔ جو نئی کتاب بازار میں آتی وہ اسے فوراًلپک لیتے۔ اسلم ملک کے مطابق ستار طاہر نے ڈھائی سو سے زیادہ کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے۔ وہ یکم مئی انیس سو چالیس میںگورداسپور میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا خاندان قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لائل پور(فیصل آباد) منتقل ہوا۔ اسی شہر سے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ انیس سو ساٹھ کے قریب صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ متعدد قلمی ناموں سے لکھا جیسے ابن فتح‘ ابو عدیل وغیرہ۔ درجنوں مختلف رسائل میں نو بہ نو موضوعات پر تحریریں قلمبند کیں۔ پچہتر طبع زاد کتابوں کے مصنف تھے۔ سوا سو کتابیں ترجمہ کیں۔ ایک سو کتابیں بچوں کے لیے لکھیں۔ روکھی سوکھی کھائی لیکن علم سے ناطہ جوڑے رکھا۔کسی کام کو عار نہیں جانا۔ ایک زمانے میں ڈاکخانے کے باہر خطوط اور عرضیاں لکھنے کا کام کرتے رہے۔کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں جن میں ’میرانام ہے محبت ‘ایسی سپر ہٹ فلم شامل ہے۔ اس فلم کا پلاٹ ایک مشہورانگریزی ناول سے اخذ کیا گیا تھا۔دیانت دار‘ صاحب ضمیر انسان کی حیثیت سے ستار طاہر کی زندگی مشکل تھی۔ روپے پیسہ کا حصول یا جمع کرنا کبھی مد نظرتھا ہی نہیں ۔ سارادھیان علم کی جستجو میں تھا۔ ان کی اہلیہ نے رفاقت کا حق ادا کیا۔ تدریس سے وابستہ رہیں۔ گھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں شریک۔ستار طاہر کی زندگی کے ایک افسوس ناک واقعہ کا میںچشم دید گواہ ہوں۔ ایک پبلشر سے یاداللہ تھی۔ ایک روز میںان کی دکان پر گیا تو وہاں پرانی انگلش کتابوں کا بڑاڈھیر لگا ہوا تھا۔ مجلد پرانے لائف میگزین اور ریڈرز ڈائجسٹ رکھے ہوے تھے۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگے کہ ستار طاہر کے گھر سے لائے گئے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ سے ہمارا قرض دینا تھا۔ وہ ادا نہیں کرسکے ۔اس کے بدلہ ہم ان کی لائبریری اٹھا لائے۔‘ مجھے اندازہ ہے کہ ستار طاہر کے لیے یہ کتنا بڑا صدمہ ہوگا۔ انہوں نے برسوں نئی کتابیں‘ رسائل خرید کر جمع کی تھیں اور انہیں جلد کرواکر محفوظ کیا تھا۔ اپنے خون پسینے کی کمائی سے۔ اس واقعہ کے بعد وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہے۔اُن کی زندگی کٹھن گزری ۔ جتنا علمی‘ ادبی کام انہوں نے کیا تھا اگر وہ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں ہوتے تو بہت نامور اور خوشحال ہوتے۔ ہم عالم فاضل لوگوں کو ان کی زندگی میں خون کے آنسو رلواتے ہیں۔ ستار طاہر کی وفات کے بعد پیپلزپارٹی کے دور میں انہیں جمہوریت ایوارڈ سے نوازا گیا کہ جنرل ضیا ء الحق کی فوجی حکومت میںانہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے خاصا تحریری کام کیا تھا۔ بعد از وفات انہیںصدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ لاہور ایک ایسا شہر ہے جو نادر ِروزگار شخصیات کا مسکن رہا ہے۔ جو لوگ مشہور و معروف ہوگئے ان کے سوا ہزاروں ایسے جواہر ہیں جن کا تذکرہ عام نہیں۔ستار طاہر بھی ایسے قیمتی لوگوں میں سے ایک تھے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز