136

اپوزیشن کے محرکات

تحریکِ عدم ا عتماد کے محرکات محض اپوزیشن رہنماؤں کے ذاتی مفادات ہیں۔اس سارے عمل میں نظریہ‘ اصول‘ قومی تعمیر یا عوام کے مفاد کا دُور دُور تک عمل دخل نہیں۔ اخلاقیات اور نصب العین سے عاری ہماری سیاسی تاریخ میں ایک اور افسوس ناک باب کا اضافہ ہونے جارہا ہے۔خواہ تحریک کامیاب ہو یا ناکام۔عملی سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ ہر طرح کی اخلاقیات سے عاری ہو ۔ فرض کریں کہ مسلم لیگ (ق) کے بعد ایم کیو ایم تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس کا اثر دیگر چھوٹی جماعتوں اور پی ٹی آئی کے منحرف ارکان پر پڑے گا۔ وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی کامیابی کے بارے میں مشکوک ہوجائیں گے۔ تحریک ِعدم اعتماد کی کامیابی کا امکان کم ہوجائے گا۔اب اسکے برعکس فرض کریں کہ تحریک ِانصاف کے دس بارہ ارکان اور چھوٹی جماعتوں کے سات آٹھ ارکانِ قومی اسمبلی کپتان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک میں ان کے خلاف ووٹ ڈال دیتے ہیں۔اپوزیشن اتحاد کے اپنے 161 ارکان ہیں۔ منحرف ارکان کی مدد سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا اتحاد عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔لیکن آگے کیا ہوگا؟ کیا نو دس مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ایک مستحکم مخلوط حکومت بناسکے گا؟ اور اگر بنالے گا تو کیا اسے چلا پائے گا؟ وزیراعظم کے عہدہ کے لیے قومی اسمبلی نئے لیڈرآف دی ہاؤس کاانتخاب کرے گی۔تحریک ِانصاف کے منحرف ارکان آئین کی ڈی فیکشن شق کے تحت اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ نئے وزیراعظم کے الیکشن میں ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔چار چھوٹی جماعتوں بشمول ق لیگ‘ باپ‘ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم پاکستان کے سترہ ارکان ہیں۔ق لیگ پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کا منصب حاصل کرچکی۔ اسکے بدلہ میں وہ مرکز میں پی ٹی آئی کی حمایت کرنے کی پابندہے۔ ق لیگ کے ایک ایم این ا ے طارق بشیر چیمہ ن لیگ کے ساتھ ہیں۔اس پارٹی کے باقی چار ارکان قومی اسمبلی پی ٹی آئی کا ساتھ دیں گے۔ سندھ میں جی ڈی اے کے دو تین ارکان ایسے ہیں بشمول فہمیدہ مرزا جو اپوزیشن سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ فرض کریں کہ باقی ساری چھوٹی جماعتیں بشمول ایم کیو ایم اور باپ اپوزیشن اتحاد سے مل جاتی ہیں۔ تب بمشکل 172 ارکان جمع ہوسکیں گے۔شائد ایک یا دو ووٹوں سے اپوزیشن اتحاد کی نو دس سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت تشکیل پاسکے۔ مان لیجیے کہ شہباز شریف وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ ان کی مخلوط حکومت سے ایک رکن بھی اس اتحاد سے کھسکا تو حکومت دھڑام سے نیچے گرے گی۔پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومتیں موجود ر ہیں گی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات مرکز سے زیادہ ہیں۔مرکزی حکومت کے حصہ میں رسوائی کے سوا کیا آئے گا؟کیا شہباز شریف ایم کیو ایم اور اختر مینگل کی بی این ایم کے مطالبات اور فرمائشیں پوری کرسکیں گے۔ اُن پر نوازشات کریں گے تو عوام کو کیا دیں گے؟ ایک طرف آئی ایم ایف کی کڑی شرائط‘ عالمی منڈی میں اجناس کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتیں۔ عمران خان آرام سے نہ بیٹھیں گے۔ جلسہ پر جلسہ ہوگا۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کا غلبہ ہے۔ عام انتخابات میں ڈیڑھ سال رہ گیا ہے۔شہباز شریف عوام کو کچھ نہیں دیں سکیں گے۔یہ باتیں آصف زرداری‘ شہباز شریف‘ مولانا فضل الرحمن کو معلوم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ حکومت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ کیوں؟ ایک سینئر اینکر صحافی نے عقدہ کھولا کہ عمران خان کے خلاف عدم ا عتماد لانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ نیا آرمی چیف مقرر نہ کرسکیں۔ موجودہ سپہ سالار نومبر میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ عام طور پر ریٹائرمنٹ سے کچھ ماہ پہلے نئے چیف کا اعلان کردیا جاتا ہے ۔ اس دوران میں ریٹائر ہونے والے سپہ سالا ر مختلف جگہوں پر تعینات جوانوں سے الوداعی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں اقتدار کے کھیل میں ریاستی اداروں ‘ مقتدرہ کا اہم کردار ہے اس لیے آرمی چیف کا تقرر اہمیت کا حامل ہے۔ عام جمہوری ملکوں میں یہ ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وزیراعظم نے سینیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرکے اپنے پسندیدہ جونئیر افسر کو آرمی چیف بنایا وہ اسکے ہاتھوں محفوظ نہ رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سینئر افسروں کو چھوڑ کر ضیاء الحق کو سپہ سالار بنایا، ان ہی کے ہاتھوں معزول ہوئے۔نواز شریف نے مختلف اوقات میں آصف نواز جنجوعہ‘ وحید کاکڑ ‘ پرویز مشرف‘ قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف مقرر کیا۔ ان سب سپہ سالاروں سے ان کے تعلقات خراب ہوئے۔اس تاریخ کے باوجود سیاستدانوں کی خواہش رہتی ہے کہ نیا آرمی چیف سینیارٹی سے ہٹ کر اپنی پسند کے مطابق مقرر کریں۔ اگر عمران خان آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ قانون بنادیتے کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرح سینئرموسٹ لیفٹیننٹ جنرل پیش رو کی ریٹائرمنٹ کے بعد خود بخود آرمی چیف بن جائے گا تو یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے خوش اسلوبی سے نپٹ جاتا ۔ ہزاروں افسروں میں سے میرٹ کی بنیاد پرترقی پاکرچند لوگ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر پہنچتے ہیں ۔ ان سب کی صلاحیتوں میں اُنیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے۔ ایک روایت پڑ جاتی۔ ادارہ مضبوط ہوتا۔شائد معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ آرمی چیف کے تقرر میں دیگر عوامل ‘ لابیاںبھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کا مجھ ایسے کم مایہ صحافیوں کو علم نہیں۔ کچھ حلقوں کا مفاد ہوسکتا ہے کہ عمران خان نئے آرمی چیف کا تقرر نہ کریں۔ لیکن اس تبدیلی سے اپوزیشن جماعتوں کوکیا فائدہ ہوگا؟ مولانا فضل الرحمن کی انا‘ جذبہ انتقام کی تسکین ہوجائے گی۔ عمران خان نے ان کی ذات پر خاصے سخت حملے کیے ہیں۔ زرداری کی پیپلزپارٹی اور شریف خاندان کو اپنی حکومت لانے سے صرف ایک فائدہ ہوگا کہ وہ آتے ہی نیب کا قانون ختم کردیں یا اسے اس طرح تبدیل کردیں کہ ان کے خلاف مقدمات غیر موثر ہوجائیں۔ عمران خان کے دور میں آصف زرداری‘ شہباز شریف‘ مریم نواز ‘ رانا ثناللہ سمیت کسی بڑے سیاستدان کے خلاف کرپشن کے کسی مقدمہ میں پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یہ عملی طور پر این آر او کے مترادف ہے جو سسٹم نے انہیں دیا ہوا ہے لیکن وہ اسے قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔نیب کے قانون اور مقدمات کو ٹھپ کرنے سے مخالفین پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے خلاف پروپیگنڈہ کریں گے ۔ عوام میں ان لیڈروں کا تاثر خراب ہوگا لیکن سیاستدان سمجھتے ہیں کہ عوام کو چکنی چپڑی باتوں سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ عوام میں ایک طبقہ ایسا ہے جو کرپشن کو بُرا نہیں سمجھتا۔ ہوسکتا ہے ماضی کی طرح ایک بار پھر ان اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بڑے پیمانے پر افسربھرتی اور تعینات کیے جائیںتاکہ وہ مستقبل میں کام آئیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز