251

تماشائی کلاس

پیشہ ور سیاستدانوں‘ نام نہاد الیکٹ ایبلزکا رچایا ہُوا ڈرامہ زورو شور سے جاری ہے۔حسب ِروایت انہوں نے اپنی وفاداریاں ایک بار پھر تبدیل کرلیں ۔ عمران خان کی پارٹی کو وفاق اور پنجاب میں اکثریت سے محروم کردیا۔ پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی ایّام سے لے کراب تک روایتی سیاسی طبقہ ان گنت بار یہ عمل دوہرا چکا ہے۔یہ کمال لوگ ہیں۔ طاقتور ریاستی اداروں کے سوا کسی سے پکّی دوستی نہیں کرتے۔اسی طرح انگریز کی تابعداری کرتے تھے۔ اب دنیا کے بڑے چودھری انکل سام کی جانب نظریں لگائے رکھتے ہیں۔ان کا محکم کردار ان کی موقع پرستی ہے۔ پاکستان کے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ دلچسپی سے سیاسی تماشا دیکھ رہے ہیں۔ہماری تاریخ کے بیشتر حصہ میں غریب اور سفید پوش طبقہ نے تماشائی کا کردار ہی ادا کیاہے ۔ ملک میں غریب اور محنت کش طبقہ کا ووٹ زیادہ ہے کیونکہ وہ آبادی کا کم سے کم نصف ہیں۔تاہم فعال سیاسی کردار مڈل کلاس ادا کرتی ہے۔ سیاسی ورکرزیادہ تر لوئر مڈل کلاس سے آتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی تقریباً چالیس فیصد آبادی نچلے متوسط طبقہ اور اپر مڈل کلاس پر مبنی ہے۔ انیس نوّے کی دہائی سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کا متوسط طبقہ دو دھڑوں میں منقسم ہوگیا تھا۔ایک بڑاگروہ نواز شریف کی مسلم لیگ(ن) کا حامی اور دوسرا بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی کا ۔ مسلم لیگ(ن) میں زیادہ ترکاروباری‘ تاجر طبقہ سے وابستہ افراد اور ان کے خاندان شامل ہیں۔ شمالی‘ وسطی پنجاب اور ہزارہ اس کے گڑھ ہیں۔ پنجاب کا علاقائی تعصب بھی اس پارٹی کی مقبولیت کا ایک اہم عنصر ہے۔ ن لیگ کے حامی زیادہ تر سماجی اقدار میں قدامت پسند ہیں۔سرمایہ داری نظام کے حامی ہیں۔انفرا سٹرکچر پر مبنی ترقیاتی کاموں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے ان کی ترجیحات میںشامل نہیں۔جائز‘ ناجائز کاموں کے لیے حکومتی سرپرستی کو جائز سمجھتے ہیں۔ کرپشن کوبُرا نہیں سمجھتے۔ــ’کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہیـ‘۔ اِن کا مقبول نعرہ ہے۔ نواز شریف کا کمال یہ ہے کہ ان کی قیادت میں قدامت پسند ‘ مذہبی اورنظریاتی طور پر لبرل طبقات ایک چھتری تلے جمع ہوگئے ۔ سب کے مقاصد الگ ہیں۔ نظریات مختلف ہیں لیکن مفادات شریف خاندان سے وابستہ ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے جاں بحق ہونے کے بعد مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا لبرل طبقہ نواز شریف کا زبردست حامی بن چکا ہے۔ جب تک بے نظیر زندہ تھیںان کی اکثریت پیپلزپارٹی کے ساتھ تھی۔تعلیم یافتہ آزاد خیال طبقہ انڈیا سے دوستی کا حامی ہے اور پاکستان کی مقتدرہ کا سخت مخالف۔امریکہ اور مغرب سے اتحاد چاہتا ہے۔مغربی طرزِ حیات اور اقدار پاکستان میں فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ چونکہ نواز شریف انڈیا سے دوستی چاہتے ہیں اور مقتدرہ سے کئی بار ٹکرا چکے ۔اسی لیے لبرل کلاس اُن کی فطری اتحادی ہے۔ جو لڑائی لبرلز خود لڑنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں رکھتے وہ نواز شریف کے ذریعے لڑتے ہیں۔ انگریزی زبان کے تمام اخبارات و جرائد اور این جی اوز پرمغربیت پسندوں کی اجارہ داری ہے۔ان کی مکمل حمایت نواز شریف کے لیے وقف ہے۔نوا زشریف نے پاکستان میں سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنے حامیوں کی فیاضانہ سرپرستی کے کلچر کو فروغ دیا۔ اس کے طفیل بھی انہیں متوسط طبقہ میں ایک بڑے حلقہ کی حمایت حاصل ہوئی ۔ کتنے ہی لوئرمڈل کلاس کے افراد نواز شریف کی عنایات و نوازشات کے باعث کروڑ پتی بن گئے۔ وہ ان کے نام کی مالا جپتے ہیں۔ اکثر لوگ ایسے لیڈر کو پسند کرتے ہیں جو خود کھائے اور دوسروں کو کھلائے۔ جو لیڈر نہ خود مال بناتا ہو نہ دوسروں کو اس کا موقع دیتا ہو وہ بے کار آدمی سمجھا جاتا ہے۔ شریف خاندان نے سرکاری وسائل سے سرپرستی کے جس کلچر کو فروغ دیا اُس کے باعث پیشہ ور‘ روایتی سیاستدان بھی اس فیملی سے منسلک ہوگئے۔ مخصوص انتخابی حلقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے پیشہ ور سیاستدان سرپرستی اور سفارش کی بنیاد پر اپناووٹ بینک قائم رکھتے ہیں۔ اگر حکومت ان کا ہاتھ نہ تھامے تو ان کا دھڑاکمزور ہونے لگتا ہے۔ عملی سیاست کا یہ ہنر عمران خان سیکھ نہیں سکے یا اُن کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سیاسی اشرافیہ نے حکومتی وسائل پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے عرصہ ٔدراز تک عوام میں انڈیا دشمنی کا نعرہ لگایا۔انڈیا سے کشمیر کا تنازعہ ہے۔ دریاؤں کے پانی کے وسائل پر اختلافات ہوجاتے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے ہمارے لوگوں میں بھارت کے بارے میں منفی جذبات فروغ پاتے ہیں۔ پیشہ ور سیاستدانوں نے ہمیشہ ان کا اپنے فائدے کے لیے بھرپور استعمال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت کا ایک اہم سبب انیس سو پینسٹھ کی جنگ اور معاہدہ تاشقند کے بارے میں اُن کا موقف تھا۔ نواز شریف ایک عرصہ تک اپنی حریف بے نظیر بھٹو کوملک کے لیے سیکیورٹی رسک قرار دیتے رہے۔ لیکن اب پنجاب کا ماحول بدل چکا ہے۔ بزنس کلاس بہت وسیع ہوچکی ہے۔ بڑے بزنس مین انڈیا سے تجارت کرکے مال بنانا چاہتے ہیں۔ انڈیا کی بڑی منڈی دیکھ کر ان کی رالیں ٹپکتی ہیں۔ وہ اپنے کارخانوں کے لیے اس سے سستا خام مال خریدنا چاہتے ہیں۔حال میں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے بزنس ٹائیکون نے سر عام انڈیا سے تعلقات بہتر بنانے اور تجارت کھولنے کی وکالت کی۔ نواز شریف اس طبقہ کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ریاستی ڈھانچہ میں اِس موقف کے حامی موجود ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ملک ترقی نہیں کرتے بلکہ خطّے ترقی کرتے ہیں۔ مطلب‘ پاکستا ن اور انڈیا ملک کر ترقی کریں۔ نواز شریف کی پنجاب کے متوسط طبقہ اور بزنس کلاس میں مقبولیت کے لیے عمران خان زوردار چیلنج بن کر اُبھرے۔ پچیس برس قبل لاہور کے متوسط طبقہ نے تحریک انصاف کا ڈول ڈالا۔دس گیارہ سال یہ ایک چھوٹا سا گروہ رہا۔ دو ہزار گیارہ میں عوام نے اس کی طرف ہجوم کیا۔ عمران خان کا ڈنکا بجنے لگا۔وہ پنجاب کی نئی نسل کے ہیرو ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنمابن گئے۔یہ طبقہ میرٹ کے نظام‘ اقتدار کی نچلی سطح پر تقسیم‘ قانون کی حکمرانی‘ روایتی سیاستدانوں کی اجارہ داری توڑنے کا خواہاں تھا۔ مڈل کلاس نظام حکومت میںاپنا باقاعدہ حصہ چاہتی تھی۔ جیسے ہی عمران خان کی مقبولیت بڑھی موقع پرست دولت مندسرمایہ کاروں اور پیشہ ور سیاستدانوں نے اُن کی پارٹی کا رُخ کرناشروع کیا۔ یہ ڈبل شاہ تھے جو اپنی سرمایہ کاری کئی گنا بڑھانے کی غرض سے کپتان کے ساتھ شامل ہوئے۔ عمران خان نے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے اپنے اصل ساتھیوں کو پیچھے کردیا ۔ نووارد موقع پرستوں پر بھروسہ کرنے لگے۔ حکومتیں بنالیں لیکن اپنے منشور پر عمل نہیں کرسکے کیونکہ تبدیلی روایتی سیاستدانوں کے مفاد میں نہیں ۔ پولیس ‘ عدلیہ اور ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں تبدیلی ان کی سیاسی موت ہے۔ با اختیار بلدیاتی نظام متوسط اور سفید پوش طبقہ کو اقتدار میں شریک کردے گا۔جاگیردار‘ قبائلی سردار اسے کیسے قبول کرسکتے ہیں؟ عمران خان تبدیلی کے ایجنڈے پر اس مفاد پرست ‘ موقع پرست گروہ کے ساتھ مل کر عمل درآمد کروانا چاہتے تھے جو اسکی راہ میںاصل رکاوٹ ہے۔ انہوں نے حسب ِدستور موقع ملتے ہی عمران خان کو حکومت سے فارغ کروادیا۔ مڈل کلاس ایک بار پھر تماشائی ہے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز