775

معاشی استحکام کا دارومدار سیاسی استحکام

21 صدی میں کسی بھی ریاست کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بھاگ دوڑ میں شامل ہونے کیلئے معشیت کا درست سمت گامزن ہونا بہت ضروری ہے معاشی استحکام کا دارو مدار ہمیشہ سے سیاسی استحکام پر رہا ہے جس ریاست میں سیاسی استحکام رہا ہے وہ ملک دنیا کے نقشے میں ابھرنے والا سپر پاور بن چکا ہے لیکن بد قسمتی سے پاک وطن پاکستان سیاسی انتشار اور فوجی مداخلت کے باعث معشیت کو درست گامزن ہونے سے قاصر رہا ہے 73 سالہ تاریخ میں ادھی سے زیادہ حکمرانی فوجی ڈکیٹرشپ کر چکے ہیں جس سے پاکستان کی طول و ارض کو شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا قدرتی زخائر سے مالا مال,سیاحت کیلئے موزوں ترین ملک آج ترقی کی شرح میں آفغانستان جیسے جنگ زدہ ملک سے بھی پیچھے ہیں یہی نہیں بنگلہ دیش جو ہم سے آزاد ہوچکا ہے وہاں ترقی کی شرح 8.2 فیصد ہے اور پاکستان کی ترقی کی شرح صرف 2.3 فیصد ہے جو 21 صدی میں کسی ایٹمی قوت کے عامل ملک کیلئے لمحہ فکریہ ہے بنگلہ دیش کی ترقی کی بنیادی وجہ ملکی سیاست میں سیاسی انتشار اور فوجی مداخلت کا نہ ہونا ہے مگر میرے وطن میں آج بھی فوجی مداخلت اور سیاسی انتشار برقرار ہے جس کے باعث ملک دیوالیہ بن چکا ہے سیاسی مداخلت کا معاشی استحکام پر گہرا اثر پڑتا ہے جس کی تاریخ میں بڑی دردناک مثالیں موجود ہیں آئیں انہیں ملاخطہ فرمائیں

پاکستان میں پچھلے دس حکومتوں میں سے صرف تین حکومتوں نے مدت پوری کرلی بقیہ سات کو سیاسی انتشار اور فوجی مداخلت کی وجہ سے برطرف کیا گیا جس کی وجہ سے ملکی معشیت تزلی کا شکا ہوا مداخلت کو وجہ قرار دے کر ہر پارٹی آپنے ایجنڈے پورے نہ کرنے کا نعرہ لگاتی ہے آگر آئین کے مطابق پانچ سال حکومت کرنے کا موقع دیا جائے تو آگلے الیکشن میں سیاسی پارٹیز کاردگی کی بنیاد ووٹ مانگنے آئیگی پھر عوام انہیں ووٹ دے گی جو عوامی مسائل حل کرنے کی تک و دو میں ہو مگر بدقسمتی سے کسی پارٹی کو مکمل پانچ سال حکومت نہیں ملی جس کی وجہ سے معشیت عدم استحکام کا شکار رہا 

1988 میں جب جونیجو حکومت کو برطرف کیا گیا تو پاکستان معالی بحران کا شکار ہوگیا تھا ترقی کی شرح جو افغانستان جنگ میں آمریکی امداد کی وجہ سے 7.6 فیصد تھی کم ہوکر 4.9 فیصد رہ گئی 

 پھر اس کے بعد دس سال تک بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی دو دو بار حکومتیں آئی ان دس سالوں میں سانپ سیڑھی کا جو کھیل کھیلا گیا ان سے ہماری جمہوری پارٹیز کو سبق سیکھنا چائیے

1989 میں جب بینظیر بھٹو کی حکومت بنی تو ترقی کی شرح 4.9 فیصد تھی جو 1990 میں  کم ہوکر 4.45 ہوگئی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی غیر آئینی شک 58,2B کا استعمال کرکے بھٹو حکومت کو برطرف کردیا بینظیر بھٹو کو یہ ملال رہا کہ وہ جو کام کرنا چاہتی تھی وہ کر نہ سکی 29 اکتوبر 1990 میں الیکشن ہوا پی پی پی ہار گئی اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی کے ساتھ نواز شریف وزیراعظم بنے تو وہ ایک وژن ایک منصوبہ لیکر آئے جو GDP گروتھ 1990 میں 4.45 فیصد تھی 1991 میں بڑھ کر 5.06 فیصد ہوگئی 1991 میں مزید بڑھ کر 7.7 فیصد ہوگئی نواز شریف حکومت میں اداروں کی نجکاری میں کمی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا مہنگائی کی شرح کم ہوئی ملک میں موٹر ویز بنانے شروع کردئیے گئے مگر اپریل 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے پھر 58,2B کا استعمال کرکے قومی اسمبلی تحلیل کردی ترقی کی شرح جو 7.7 فیصد تھی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کم ہوکر 1.7 تک آگئی سیاسی معاملات میں صدارتی مداخلت کی وجہ سے بینظیر بھٹو حکومت کی طرح نواز شریف حکومت بھی ایجنڈا پورا کرنے میں ناکام رہی جنوبی پنجاب کا پہلا موٹر وے ادھورا رہ گیا جو  نواز شریف نے دوبارہ اقتدار میں آکر مکمل کیا ممکن ہے جو منصوبہ 8 سال میں مکمل ہوا 3 سے 4 میں مکمل ہوسکتا تھا 

معین قریشی نگراں وزیراعظم بنے 1993 میں انتخابات کروائے گئے پی پی پی کامیاب ہوئی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے منشور میں کرپشن کا خاتمہ ایک اہم سلوگن تھا بینظیر بھٹو نے نواز شریف کے کئی اقتصادی پالیسی کو جاری رکھا 1994 میں آئی پی پیز متعارف کروائے 1994 سے لیکر 1997 تک اس سیکٹر پر بے تحاشہ انویسٹمنٹ کی لیکن جہاں اس پالیسی کی وجہ سے بجلی کی نرخوں میں اضافہ ہوا وہاں دس سال تک یہی آئی پی پیز کی وجہ سے لوڈشیڈنگ نہیں رہی بینظیر بھٹو دور حکومت میں معشیت کے بہتری کے آثار بھی آتے رہے 1994 میں جی ڈی پی کی شرح 1.7 سے بڑھ کر 3.7 تک پہنچ گئی 1995 میں مزید بڑھ کر 4.9 فیصد ہوگئی 1996 میں کم ہوکر 4.8 فیصد ہوگئی مگر 1997 میں صدر فاروق لغاری کی مداخلت کے باعث بینظیر حکومت ختم کردی گئی تو ترقی کی شرح 4.8 فیصد سے گر کر 1 فیصد ہوگئی جو معشیت مستحکم ہورہی تھی وہ سیاسی انتشار کے باعث تزلی کا شکار بنی بینظیر بھٹو کو بھی اپنا ایجنڈا ,منشور اور وژن مکمل نافظ العمل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا

مہران خالد نگراں وزیراعظم بنے اس وقت عمران خان بھی اپنی سیاسی جماعت بنا چکے تھے فروری 1997 میں دوبارہ انتخابات کروائے گئے نون لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی نواز شریف وزیر اعظم بنے نون لیگ کی اس دور میں اِہم آئینی ترامیم ہوئی تین جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجنے والی شک 58,2B کا خاتمہ کیا گیا اختیارات واپس وزیر اعظم کو منتقل ہوگئے کیونکہ آٹھویں ترمیم 58,2B کے تحت صدر کو یہ اختیارات حاصل ہوگئے تھے کہ وہ ہنگامی صورت حال میں قومی اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں

نواز شریف کے اس دور حکومت میں بھی بہت اصلاحی کام کئے گئے معشیت مستکم ہوتی رہی جو جی ڈی پی 1997 میں 1 فیصد تھی 1999 میں بڑھ کر 3.6 فیصد ہوگئی مہنگائی کی شرح 1997 میں 11.8 فیصد تھی 1999 میں 5.74 فیصد ہوگئی ملکی حالات بہتر ہوتے گئے مگر 12 اکتوبر 1999 میں فوجی مداخلت نے حکومت کو برطرف کردیا مشرف صدر پاکستان بن گئے نواز شریف کو ملک سے باہر نکال دیا گیا ملک میں کنٹرول جمہوریت قائم کر دی گئی سیاسی اختلاف نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ دو بڑے سیاسی رہنما نواز شریف اور بینظیر بھٹو ملک سے باہر تھے معشیت بہتر ہونے لگی اسٹیل ملز منافع کرنے لگا جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہوتا رہا جس کی اہم وجہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں آمریکہ کا ساتھ دینا تھا جو ہمیں ڈالر دیتے رہے

سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت اور صدارتی انتشار کو بالائے تاک رکھتے ہوۓ مئی 2006 میں نون لیگ اور پی پی پی کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا جس میں یہ طے کیا گیا کہ آئندہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کیلئے غیر آئینی اقدامات کریں گی اور نہ ہی غیر جمہوری عناصر کی سازش کا حصہ بنے گی جو بلا شبہ پاکستان کے جمہوری تاریخ کیلئے ایک اہم سنگ میل تھی 2007 میں آلیکشن ہوا پی پی پی کی حکومت بنی آصف علی زرداری صدر بن گئے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے پی پی پی حکومت نے غربت کے خاتمے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا کئی سالوں سے التوا کا شکار این ایف سی ایوارڈ بحال کیا زرعی پالیسی بنائی یاد رہے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پہلی حکومت بنی جنہوں نے آئینی پانچ سال مدت پوری کی ان پانچ سالوں میں ایک جگہ مہنگائی کی شرح 24 فیصد پہنچ گئی لیکن حکومت کی مدت پوری ہوئی تو مہنگائی کی شرح کم ہو کر 7.4 فیصد رہ گئی جبکہ 2008 میں جی ڈی پی گروتھ 1.7 فیصد تھی جو حکومت کے خاتمے تک بڑھ کر 4.3 فیصد ہوگئی ایک اہم کامیابی اٹھارویں ترمیم منظور کرایا گیا جس سے صوبوں کے اختیارات میں اضافہ ہوا 2008 میں ملکی برآمدات 20 ارب ڈالر تھیں جو 2013 میں بڑھ کر 25 ارب ڈالر ہوگئی

آگر باقی حکومتوں کی طرح اس حکومت کو بھی دو سال دئیے جاتے تو نہ اٹھارویں ترمیم منظور ہوتی اور نہ ملکی برآمداد میں 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوتا اس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی خود بھی لیتی رہی ہے 2013 میں آلیکشن ہوئے نون لیگ واضح اکثریت سے جیت گئی نواز شریف پھر وزیر اعظم بنے ممنون حسین صدر پاکستان منتخب کئے گئے

نواز شریف کو معاشی چیلینجز کے ساتھ بجلی اور گیس کے لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا جس کو نون لیگ نے مہارت سے حل کرلئے ایل این جی کے ذریعے گیس کے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا بجلی کیلئے 10000 میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کی مختلف سیکٹر میں بجلی گھر بنائے گئے آمن امان کی صورت حال بہتر ہوئی مہنگائی کی شرح جو 2013 میں 7.4 فیصد تھی 2018 میں کم ہوکر 3.9 فیصد رہ گئی جی ڈی پی گروتھ جو 2013 میں 4.3 فیصد تھی 2018 میں بڑھ کر 5.5 فیصد ہوگئی اور سب سے اہم کارنامہ چین کے ساتھ 55 ارب ڈالر کا سی پیک منصوبہ بنایا جو پاکستانی معشیت کیلئے گیم چینجر ہے

ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے اب پھر وہی غلطی دُہرانے کی کوشش کی جارہی ہے اپوزیشن پارٹیز تحریک انصاف حکومت کو گھر بیجھنے پر تُلی ہوئی ہے تحریک انصاف حکومت کا ابھی تک ادھی حکومت بھی پوری نہیں ہوئی مگر انہیں گھر بیجھنے کی تیاری ہورہی ہے جو کسی صورت بھی ملکی مفاد کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوسکتا عین ممکن ہے کہ پانچ سال پورے ہونے سے پہلے تزلی کا شکار  معشیت مستحکم ہوجائے اپوزیشن کو ماضی سے سبق سیکھنی چائیے

 

بشکریہ اردو کالمز