166

حریم شاہ کی برہنہ ویڈیو زیادہ فحش ہے یا ہماری ذہنیت؟

 

سیکشؤل فرسٹریشن جب مورل فرسٹریشن میں ڈھلنے لگتی ہے تو معاشرے کی ذہنی برہنگی عیاں ہونے لگتی ہے، اپنی اپنی پرہیزگاری کی قلغیوں کو سربلند رکھنے کے لئے دوسروں کی کردار کشی کرتے رہنا ایک طرح سے مورل فرسٹریشن کے زمرے میں آتا ہے۔کسی معاشرے کی ذہنی سطح کا اگر جائزہ لینا مقصود ہو تو بس اتنا دیکھ لینا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہاں "اوڈ یا وئیرڈ" قسم کے سوالات پوچھے جانے کی کتنی گنجائش موجود ہے، اگر تو خاصی گنجائش موجود ہے تو اس قسم کے معاشرے میں برداشت کی سطح بھی بہت بلند ہوگی اور ایسے سماج ہی مثالی اور آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں اور جہاں یہ گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے وہ ذہنی معیار کی پست ترین سطح پر ہوتے ہیں جن کا وطیرہ ہمیشہ دوسروں کی مورل پولیسنگ کرنا ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں کا تعلیم و صحت جیسے مسائل و وسائل سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ یہاں کی تو دنیا ہی الگ ہوتی ہے، یہاں اس قسم کی باتیں ڈسکس ہو رہی ہوتی ہیں کہ

 فلاں کی ننگی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں۔

 فلاں اخلاقی طور پر انتہائی گھٹیا انسان ہے۔

 کم لباس پہننے والی خواتین طوائف ہوتی ہیں۔

 وہ بندہ احمدی یا شعیہ ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی بجائے یوم حیا منانا چاہیے۔

 ایسے معاشروں کا ضبط چھوٹا سا سوال کر لینے سے ہی کرچی کرچی ہو جاتا ہے مگر دوسری طرف دوسروں کی ننگی ویڈیوز بغور ملاحظہ کرنے کے بعد بھاشن بازی کرنے یا طعن و تشنیع کرنے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا،پارسائی کا زعم یا وہم بھی عجیب ہوتا ہے جو خود کو خود کی نظروں میں بہت بڑا بنا دیتا ہے اور دوسروں کو بہت چھوٹا یا حقیر اور اسی پارسائی کے سنڈروم کی حقیقت حریم شاہ کی نجی ویڈیو نے کھول کے رکھ دی۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو ملفوف خاتون تک کی اسکینگ کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور اس کے کردار تک کی پرکھ چند سیکنڈ میں کر لیتے ہیں، کیونکہ ہمارے مطابق خاتون کا وجود وجائنا سے شروع ہوکر وجائنا پر ہی ختم ہو جاتا ہے باقی عورت تو محض لاش ہوتی ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہم نے جسم کو معمہ بنائے رکھنے میں ہی اپنی اور معاشرے کی عافیت و خیر جانی اور ایک ملفوف سی زندگی جینے کو ترجیح دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم بظاہر وضع قطع کے حساب سے تو مہان قسم کے پارسا دکھائی دیتے ہیں مگر اندر سے مہان قسم کے"پیپنگ ٹام" ہیں جو ایک بار کی شرعی نظر ڈال کر ذہن کے تمام نہاں خانوں تک کو جنسی فرسٹریشن سے معطر کر لیتے ہیں اور قریب بیٹھے کسی کو پتہ تک نہیں چلنے دیتے۔ ہم یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتے کہ تمام تر پارسائی کے جبوں کے باوجود بھی اندر سے پورے کمینے اور جنسی تشنگی کا شکار ہیں، حس لطافت سے محروم معاشروں میں خوبصورتی کو سیلیبریٹ کرنے کی بجائے بھنببھوڑنے کا چلن ہوتا ہے۔جھپٹنا یا بھنبھوڑ نا ذہنی بیماری کی علامت ہوتی ہے اور یہ بیماری ایسے معاشروں میں عام پائی جاتی ہے جہاں زندگی کی حقیقتوں کو فیک الفاظ کے سہارے کیموفلاج کرکے  کے پیش کیا جاتا ہے، جہاں کا ادیب، دانشور یا ممتحن اوریجنل سینس میں کچھ بھی لکھ، بول یا پوچھ نہ سکتا ہو وہاں انسانوں کی بجائے زومبیز  پیدا ہونے لگتے ہیں جو ذرا سے فرضی سوال پر ہی بھڑک اٹھتے ہیں، سوچتا ہوں زندگی کی حقیقتوں سے شرمانے والے بھلا زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیسے جی سکتے ہیں یا سامنا کر سکتے ہیں؟چھپنے چھپانے والے چھپ چھپا کے سب کچھ کرتے رہتے ہیں مگر بھنک نہیں لگنے دیتے،اس حقیقت کا ادراک اس وقت ہوا جب حریم شاہ کی نجی ویڈیوز منظرعام پر آئیں اور معاشرتی پارساؤں نے دیکھ دکھا کر انجوائے کرنے کے بعد جو خیالات کے موتی پروئے ہیں وہ سوشل میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں بالکل اسی طرح سے جس طرح پیٹ رجے اپنے معدوں کو انواع و اقسام کھانوں سے ٹھونسنے کے بعد ایک بڑی سی ڈکار مارتے ہیں اور الحمد اللہ کا ورد کرتے ہیں۔ کچھ پارساؤں نے کہا کہ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ عورت لباس میں خوبصورت دکھتی ہے اور اسی لئے تو مذہب نہیں انہیں پورے کپڑے پہنے رکھنے کا حکم دیا ہے۔

 یاد رہے کہ ان کے یہ بلند مرتبت خیالات ویڈیوز انجوائے کرنے کے بعد کے ہیں پہلے کیا تھے وہ پتا نہیں۔

 کچھ نے روایتی انداز میں کہا کہ

 چالو عورت ہے اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتی ہے؟

 گندی عورتوں کے یہی دھندے ہوتے ہیں۔

 کچھ نے کہا کہ یہ سب کاروباری اسٹنٹ ہے، جسم کی نمائش کر کے گاہکوں کو مائل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

 کچھ نے کہا کہ سستی شہرت کے لیے گھٹیا انداز اختیار کیا گیا ہے۔

 کچھ نے کہا یہ تو طوائف ہے اور جسم بیچنا اس کا دھندہ ہے۔ اور کچھ نے کہا کہ ہمیں تو دیکھ کر ہی کراہت ہوئی ہے۔

یاد رہے ان میں وہ سب پارسا بھی شامل ہیں جنہوں نے انسسٹ والے مفروضاتی سوال پر آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا اور پیپر سیٹر کو یہ تک کہہ ڈالا تھا کہ

 "تم خود اپنی بیٹی کے ساتھ سونے کے بعد اپنا تجربہ شیئر کرنا پھر ہم سب پڑھیں گے"

 اور اپنے پاک صاف گیٹ اپ کے سہارے اس قدر گٹر ذہنیت کا مظاہرہ کیا کہ شاید انسانیت بھی شرما جائے، جس کا جسم ہے اگر اسے کوئی مسئلہ نہیں تو ہمیں اس کے جسم میں اتنی دلچسپی کیوں؟

 اگر پرائی خاتون کو دیکھنا حرام ہے تو پرائی خاتون کے جسم کے زاویوں پر لفظی بمباری کرنا کیسا عمل ہوگا؟

 اگر وہ طوائف ہے تو خریدار کسی اور سیارے سے آتے ہیں یا اسی معاشرے میں بستے ہیں؟ جسم کا بیوپار کرنے والا یا والی اگر نجس یا گندی ہے تو خریدار کیا کہلائیں گے؟

 وہ ایمان یا شرم و حیا کیسا ہوا جو ذرا سے سوال یا ویڈیو سے چھلک پڑے یا ڈولنے لگے؟

 جو ایمان و یقین یا پارسائی سوال کی چوٹ نہ سہہ پائے تو کیا وہ بدلتے وقت کا ساتھ دے پائے گا؟

 حریم شاہ کی نجی ویڈیو سے شاید اسے تو کوئی فرق نہ پڑے مگر معاشرتی پارساؤں کی پرہیزگاری اور ذہنی سطح ضرور واضح ہوئی ہے کہ

 وہ خواتین بارے کیا سوچتے ہیں؟

 جنسی فرسٹریشن جب پارسائی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے تو انتہائی خطرناک صورت میں سامنے آنے لگتی ہے جس کی جھلک ہم اوپر دئیے گئے کمنٹس میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ پرہیزگاری پلس ٹھرک کے کمبینیشن کے ساتھ "پائیس صنوبری" کی جو شکل بنتی ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہوتی ہے جو نہ نگلی جا سکتی ہے اور نہ اگلی، آخر پارسائی کا بھرم بھی تو رکھنا ہوتا ہے۔ ٹھرک کو کوئی بھی مہذب لباس پہنا دیں وہ چھپ نہیں سکتی بلکہ وہ زیادہ قبیح صورت میں سامنے آتی ہے۔ پرہیزگاری و تقویٰ یا استغفار کا ورد انسان کی بنیادی جبلت کو جڑ سے نہیں اکھیڑ سکتا، ہاں من کو بہلانے کے لیے ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

 یہ سارا پارسائی کمپلیکس کا چکر ہے ورنہ تو اس حمام میں سب ننگے ہوتے ہیں، ہم بحثیت ہجوم مجموعی طور پر 2023 میں بھی ذہنی بلوغت کی اس سطح تک نہیں پہنچ پائے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کر سکیں کہ سیکس 2 بالغین کا انتہائی نجی معاملہ ہوتا ہے جس میں خوامخواہ کی ناک گھسیڑنا انتہائی مکروہ یا گھٹیا ترین عمل ہوتا ہے جسے مہذب چارٹر کے حساب سے غیر اخلاقی عمل سمجھا جاتا ہے،مورل پولیسنگ فقط منافقت کی ترویج کا سبب بنتی ہے نا کہ معاشرتی سدھار کا۔

حریم شاہ جو ہے سو ہے کسی کو اعتراض کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے اور اس نے دیدہ دلیری سے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے پیچھے چھپنے کے بجائے کھل کے کہا ہے کہ یہ اسی کی نجی ویڈیو ہے۔اس کا دوسرا چہرہ بھی ہے جسے ہم نظر انداز کر گئے یا ویڈیو کے شور میں کہیں دب گیا، وہ یہ تھا کہ اس نے کئی بار اسکرین پر ہمارے بدبودار معاشرے کا پردہ چاک کیا ہے۔

حریم کا وہ کلپ یوٹیوب پر موجود ہے جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ

 یہ معاشرہ اتنا غلیظ اور تنزلی کا شکار ہوچکا ہے کہ جو اپنی جنسی ہوس مٹانے کے لیے جانوروں، خواجہ سرا حتی کہ چھوٹے بچوں بچیوں تک کو نہیں چھوڑتے، ایک طرح سے یہ معاشرہ جنسی لحاظ سے اپنی مکروہ ترین سطح تک پہنچ چکا ہے مگر ہوس ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور دوسری طرف مزہبی اجتماعات میں گہما گہمی بھی بڑھتی جارہی ہے.

بشکریہ اردو کالمز