147

بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کا تصوف و عرفانیات کورس ۔

 

سوچتا ہوں کہ قوموں پر زوال کیسے اور کیوں ہوتا ہے؟

 آج کے دور میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت تو نوشتہ دیوار ہوتی ہے، وہاں کے سکول، کالج، یونیورسٹیز اور پڑھانے والوں کی فکری سطح یا نصاب تعلیم ملاحظہ کرلیں چند سیکنڈ میں حقیقت واضح ہوجائے گی کہ

 وہ ترقی کی طرف مائل ہیں یا رجعت پسندانہ تصورات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔

 لمحہ موجود میں یہ مسئلہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی نے حل کر دیا ہے کوئی زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسی جامعہ کا اشتہار ملاحظہ فرما لیں جس میں جلی حروف میں "تصوف و عرفانیات" کورس متعارف کروایا گیا ہے۔ معروف تعلیمی یونیورسٹی کا اشتہار دیکھ کر کچھ وقت کے لئے لگا کے شاید کہیں ہم آج بھی مٹی کے تیل سے جلنے والے دیے یا لالٹین یا گھپ اندھیرے والے غاروں کے دور میں تو نہیں جی رہے، جہاں 2023 میں بھی ابھی روشنی یا اجالے کا گزر ممکن نہیں ہو پایا، مہذب دنیا اپنے چرچ کو یونیورسٹی، ریسرچ سینٹر یا کمیونٹی سنٹر میں تبدیل کر رہے ہیں جب کہ ہم اپنی یونیورسٹیز کو مدارس اور خانقاہوں میں تبدیل کرنے میں لگے ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں زمین کو جنت نظیر اور اپنی قوم کو خوشحال بنانے کے بعد اور مزید دوسری دنیاؤں یا زندگی کی تلاش کے سفر پر نجانے کب کے روانہ ہو چکے ہیں اور ہم تصوف و روحانیت کے ذریعے اپنی مخصوص "یوٹیوپیائی" جنت یا دنیا کے حصول میں نجانے کب کے خجل یا ہلکان ہو رہے ہیں مگر خیالوں کی دنیا کے بادشاہ کب کسی سلطنت کے مالک بنے ہیں؟

 اپنے عصر سے کٹ کے بھلا کون سر اٹھا کے اس دنیا میں جی پایا ہے؟

"ایں خیال است و محال است و جنوں"

 جنہیں اپنے عصر سے روگردانی کر کے یا بیگانہ رہ کر بزرگ یا ولی بننے کا چاؤ ہوتا ہے وہ خلاؤں میں گھورتے رہ جاتے ہیں جبکہ مہذب دنیا کے حقیقی بزرگ یا پیر جنہیں سائنسدان کہا جاتا ہے وہ خلاؤں کو چیر کر دوسری دنیاؤں کی کھوج میں نکل پڑتے ہیں۔

 ہمارے گدی نشین و صاحبزادگان زمین پر ہی اپنی خیالی روحانی گھتیاں سلجھاتے  رہ جاتے ہیں جب کہ قدرت کے حقیقی رازداں قدرت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شناسائی کا گیان حاصل کرتے ہیں اور انسانیت کی فلاح و بہبود میں جت جاتے ہیں۔

 دنیا سائنٹیفک برین تخلیق کرنے میں مصروف ہے تاکہ وہ اپنی سائنسی خانقاہوں جنہیں لیبارٹریز کہا جاتا ہے کو ان جہاں دیدہ اذہان سے بھر سکیں جبکہ دوسری طرف ہم ملنگ یا گدی نشین تخلیق کرنے میں لگے ہیں،ڈریں اس وقت سے جب خانقاہوں و درباروں کی طرح ہماری جامعات کے دروازوں پر بھی چندے کے غلے نصب ہوں گے اور طلبہ پڑھنے کی بجائے منتیں مانگا کریں گے اور چندہ ڈال کر چلتے بنیں گے؟ اگر ترقی و بلندی کا یہی پیمانہ و قرینہ ہوتا ہمارا "ملتان" تو پھر نجانے کب کا پیرس بن چکا ہوتا اور لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہوتے۔

 ترجیحات کا فرق ہوتا ہے ہمیں لیڈرز چاہییں ہی نہیں بلکہ ہمیں تو ملنگوں کی ضرورت ہے بھلے وہ یونیورسٹیوں کے تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہوں، اسی لئے تو ہماری جامعہ نے یہ بیڑا اٹھایا ہے۔ ورنہ وطن عزیز میں اتنے برے دن نہ آتے کہ ہمیں تقریباً پونے چار سال ایک ملنگ وزیراعظم کے زیر سایہ گزارنے پڑتے اور اس دوران یہ ملک تعویذ گنڈوں اور عملیات کے سہارے چلتا رہا اور ہمارا ملنگ وزیر اعظم ملکی ترقی کی طرف عملی طور پر توجہ دینے کی بجائے محض تسبیح گھمانے پر اکتفا کرتا رہا، اگر روحانی تجربے کے بعد بھی ہم زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں تو خداوندان نظام و سیاست کو سوچنا پڑے گا  جن کے قبضے میں ملک و قوم کی تقدیر ہے۔  کیا وہ سوچیں گے؟

آ رٹ و ادب یا زندگی پر اس سے برا وقت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمیں قاسم علی شاہ کے علاوہ کوئی دوسرا ادب شناس نہیں ملا، بدقسمتی دیکھئے ہم نے ایک موٹیویشن سیلر کو الحمرا آرٹس کونسل کی سربراہی سونپ دی۔ اگرچہ یہ حکمرانی گیارہ دنوں تک رہی مگر ہماری دوسری حماقتوں کی طرح یہ حماقت بھی تاریخ کے پنے پر درج ہو چکی ہے جو ہمیں کوسنے دیتی رہے گی۔

 ہماری ترجیحات اگر تعلیم، علم اور آگاہی ہوتی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہماری معروف جامعات میں طارق جمیل، احمد رفیق اختر اور قاسم علی شاہ جیسے لفظوں کی جگالی کرتے دکھائی دیتے بلکہ یہاں تو اپنی اپنی فیلڈ کے جہاں دیدہ اور ایکسپرٹ اپنی ایکسپرٹ اوپنین یا تجربات سے ہماری آنے والی نسلوں کو مستفید کر رہے ہوتے۔ مگر شاید ہمارا مسئلہ تعلیم ہے ہی نہیں بلکہ ہمیں تو جہالت سوٹ کرتی ہے،حقائق سے آ گہی نہیں بلکہ بیگانگی مناسب لگتی ہے۔ جنہیں اندھیروں سے پیار ہوتا ہے انھیں اجالوں سے کیا غرض؟

 

بشکریہ اردو کالمز