206

 پاک افواج سے محبت اور ہماری سالمیت

                    
     پاک افواج سے محبت پاکستان کے ہر شہری کے دل کی وہ آواز ہے جو ہمیں چہار سو دکھائی بھی دیتی اور سنائی بھی دیتی ہے۔اعتماد عزت اور احترام کا یہ باہمی رشتہ ہی تو ہے کہ جب بھی پاکستان کے عوام پر کوئی مشکل وقت آیا پاک افواج عوام کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئی۔وہ کام جو پاک افواج کی ذمہ داریوں میں شامل ہی نہ تھا وہ کام بھی اپنے ذمہ لے کر عوام کو بھر پور ریلیف پہنچایا ،سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں، زلزلہ جیسی قدرتی ناگہانی آفات ہوں یا موجودہ کورونا وائرس جیسی وباء، عوام نے پاک افواج کو اپنے ہمراہ پایا یہی باہمی اعتماد خلوص محبت کا رشتہ ہمارے ازلی دشمن کو ہمیشہ ناگوار گزرا اور اس نے مختلف سارشیں کرکے عوام اور پاک افواج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے نت نئے نئے حربے استعمال کیے ۔بلوچستان میں انتشار پھیلانے سے لے کر وزیرستان ایجنسی تک اپنے بے ضمیر زرخرید مہروں کو استعمال کرنے کی مزموم کوشش کی ۔یہ پاک افواج سے عوام کی محبت اور اعتماد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ایسے عناصر کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ ان کے خلاف بھر پور مذاہمت کی اور ان کو دربدر منہ چھپانے پر مجبور ہونا پڑا۔
    آج دنیا میں جو بظاہر امن و سکون نظر آتا ہے اس خاموشی کی تہہ میں ہزاروں ہنگامے پل رہے ہیں ہر قوم دوسری قوم کے خون کی پیاسی ہے ۔ ہر ملک دوسرے ملک کو ہڑپ کرنا چاھتا ہے اس دورِ انتشار میں زندہ رہنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہے وہی قوم اور وہی ملک پروقار زندگی گزار سکتا ہے جس کے پاس عسکری طاقت اور جزبہ ہو ۔اگر کوئی قوم عسکری قوت سے عاری ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے زندہ رہنے کا حق نہیں ہے کیونکہ تاریخ اور تقدیر دونوں کا فتوی یہی ہے کہ بقول شاعر©"ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات " ۔ہم جس مذھب کے پیروکار ہیں وہ ہمیں امن وسکون اور سلامتی کا درس دیتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق،ملت کے مفادات اور دین کے تقاضوں کا سودا نہیں کرتا۔جہاں ان میں سے کسی چیز پر آنچ آتی ہو اسلام مسلمان کو شمشیر بکف ہوجانے کا حکم دیتا ہے۔ اگر ظلم و ستم کا دور دورہ ہو استبدادی قوتیں منافقانہ رویہ اپناتے ہوئے سازشوں میں مصروف ہوں، ہستی کی نبضیں تپش آمادہ ہوں، عصمت و آبرو کے آبگینے مجروع ہورہے ہوں، چادر اور چاردیواری دونوں خطرے میں ہوں تو اسلام مسلمان کو جہاد کا حکم دیتا ہے یعنی مسلمان اللہ کے لیے ,اللہ کے راستے میں اس وقت تک لڑتا چلا جائے جب تک کہ امن و آشتی بحال نہ ہو جائے گویا اپنی قوت کو مستحکم ،عسکری لحاظ سے خود کو اس قابل بنانا کہ کوئی آنکھ کج نگاہی سے دیکھ نہ سکے ہمارا ایک دینی فریضہ ہے جو پاک افواج احسن طریقے سے عبادت سمجھ کر ن نبھا رہی ہے۔
    پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ہم نے اسے بیش بہا قربانیوں سے حاصل کیا ہے اس کی تاریخ کے حاشیوں پر ہمارے آباواجداد کے خون کی رنگینی آج بھی فروزاں ہے۔ پاکستان کے دشمن اسے محض اس لیے ختم کرنا چاھتے ہیں کہ یہ اسلام کا ایک قلعہ ہے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اللہ کے فضل وکرم پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی قوت بازو سے اس قلعے کو نا قابل تسخیر بنادیں۔قیام پاکستان سے آج تک ہمیں کتنے انقلاب کا سامنا کرنا پڑا 1947 ء کی خون آشامیاں 1965 ء کی جان فروشیاں اور 1971 ء کے زخم دلوں اور نگاہوں میں تازہ رہیں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو اس قدر مضبوط بنالیں کہ ہمارا وطن سیسہ پلائی دیوار بن جائے کہ اس سے ٹکرانے والا پاش پاش ہو جائے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس قوم نے تن آسانی کو اپنا شیوہ اور تیغ و سنا کو چھوڑ کر طاﺅس و رباب کو اپنی زندگی بنالیاوہ یوں مٹ گئی جیسے خزاں دیدہ پتا درخت سے گرتا اور ہوا کے دوش پر لڑھکتا پھرتا ہے ۔وہ قومیں جنہوں نے اپنے خون جگر سے چراغ روشن کیے اور اپنے اعمال کی خوبی کو دشمنوں سے منوایا جنہوں نے اپنی تاریخ خود بنائی آج بھی ان کا ذکر عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔عربوں نے جب اسلام قبول کیا اور اسے عام کرنے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں گئے تو ان کے پاس ایک چیز تھی جسے ہم عمل کی خوبی کہتے ہیں وہ جو کہتے تھے ان کے قول و فعل میں مطابقت تھی انہوں نے اسلام کے لیے اپنا خون پیش کیا اور ان کا خون تاریخ کے ایوانوں کو رنگینی عطاء کر گیا اور آج بھی جب ان کا نام آتا ہے تو بڑے بڑے حکمرانوں کے سر عقیدت سے جھک جاتے ہیں ۔
    زمانہ تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے جو قوم زمانے اور وقت کے تقاضوں کا ساتھ دیتی ہے وقت کا کارواں اسے ساتھ لے کر چلتا ہے جو قوم ان تقاضوں سے پہلوں تہی کرتی ہے زمانہ اسے روندتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم وقت کے تیور پہچانیں ، ھوا کا رخ جانچیں، تاریخ کی رو کو سمجھیں ،صبا کے زمزموں اور گھٹا کے اشاروں کو دیکھیں اور پھر زندگی کے میدانوں میں اپنے عمل کی تمام صلاحیتوں کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیں اس کے لیے ضروری ہے کہ دل میں عشق کا جذبہ پیدا ہو جائے جو اسے منزل کے پار لے جائے اور اس کے سامنے پہاڑ کنکر بن جائیں اور سمندر راستہ چھوڑ دیں ۔ پروفیسر نصرت بخاری نے کیا خوب کہا ہے کہ 
                ہمارے سامنے آئے؟ اور آئے گا انسان؟ 
                نہیں، نہیں،نہیں اس کا کوئی نہیں امکاں 
    اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کی سازشوں سے باخبر رہیں اور اپنی پاک افواج کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اسلحہ فراہم کریں اور اس کے لیے اپنا دفاعی بجٹ بڑھائیں تاکہ ہماری پاک افواج اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا بھر پور مقابلہ کر سکے ۔                 بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لیے
             زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لیے
 

بشکریہ اردو کالمز