ہم مجبور ہیں، معاف کر دینا

یہ جملہ اس شخص کا ہے جس نے شریف آباد کراچی کے ایک کریانہ اسٹور سے آٹا ، دالیں ، تیل ، گھی اور مسالے وغیرہ لوٹ کر جاتے وقت کریانہ اسٹورکے مالک کو کہہ دیا تھا ’’ ہم مجبور ہیں، معاف کر دینا‘‘۔

دو نوجوان موٹر سائیکل پر آئے اور دکاندار سے دس کلو والے آٹے کے دو تھیلے، دس کلو سے زائد مختلف دالوں کے پیکٹ، آئل اور گھی کی دس تھیلیاں اور پانچ کلو مسالوں کے پیکٹ اٹھا لے گئے۔ ڈاکوؤں نے کہا کہ وہ انتہائی مجبوری میں چوری کی واردات کر رہے ہیں۔ لہٰذا انھیں معاف کر دیا جائے۔ اگر ہم مجبور نہیں ہوتے تو کبھی بھی یہ گھناؤنا کام نہ کرتے۔ اب یہ ذرا غور طلب بات ہے کہ ایک ڈاکو یا لٹیرا ایسا جملہ کیوں ادا کرے گا۔

شیخ سعدی کا قول ہے کہ ’’ تنگ آمد بجنگ آمد‘‘۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی 94.5 فیصد دولت پر اوپر کے بیس فیصد لوگوں کا قبضہ ہے اور دنیا کی اسی فیصد آبادی کی دولت محض چار اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ دولت کے اس خوفناک اجتماع کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ داروں کے پاس اس زائد دولت کی منافع بخش بنیاد پر سرمایہ کاری کرنے کی کوئی جگہ موجود نہیں اور یہی سرمایہ داری کے موجودہ بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ ایک جانب دنیا کی آدھی دولت کے مالک بارہ افراد ہیں جب کہ دوسری جانب روزانہ اس کرہ ارض میں صرف بھوک سے75 ہزار انسان مر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اس دنیا میں بیروزگاروں کی فوج اس لیے پیدا کرتا ہے جس میں انھیں سستا مزدور ملے اور منافع میں مزید اضافہ ہو۔

بیروزگاری بڑھنے سے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، جن ملکوں میں بیروزگاری زیادہ ہے وہاں جرائم بھی زیادہ ہیں۔ جب کوئی بیروزگار ہو گا تو زندہ رہنے کے لیے ہمت والا ڈاکہ مارے گا، کم ہمت والا چوری کرے گا، بے گانگی ذات ہو کر منشیات نوشی کرے گا۔ زندگی سے مایوس ہو کر خودکشی کرے گا، زندہ رہنے کے لیے گداگری کرے گا ، بھوک کو مٹانے کے لیے عصمت فروشی کرے گا یا پھر بحری قزاق بن جائے گا۔ ان جرائم کا مرتکب ہو کر جیل کاٹے گا اور پھر رہائی کے بعد اس پر جرائم پیشہ ہونے کی مہر ثبت ہو جائے گی۔

یہ بیروزگاری ہی ہے جو اسے ساری زندگی کے لیے راندہ درگاہ کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت دنیا میں صومالیہ، نائیجیریا، پاکستان، ہندوستان، عراق اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بیروزگاری زیادہ ہے اس لیے یہاں جرائم بھی زیادہ ہیں، جب کہ کیوبا، فن لینڈ، سوشلسٹ کوریا، نیوزی لینڈ اور کوسٹاریکا وغیرہ میں بیروزگاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے وہاں جرائم بھی کم ہیں۔ اس طبقاتی نظام میں بیروزگاری ختم نہیں ہو سکتی، اس لیے مختلف علاقوں، خطوں، ملکوں اور شہروں میں عوام بغاوت کرتے ہیں اور اس طبقاتی نظام کے خلاف بے رحمانہ قدم اٹھاتے ہیں۔ احمد شاہ ابدالی کے دور حکومت میں ایک ڈاکو عبدالقادر کے نام سے قصور میں مشہور تھا۔

وہ امیروں کی دولت لوٹتا تھا اور غریبوں میں تقسیم کر دیتا تھا۔ اس کے گھر میں کھانا نہیں پکتا تھا، محلے کے لوگ اس کے گھر کھانا بھیجتے تھے۔ ایک بار اس کے ایک سکھ دوست کو احمد شاہ ابدالی کے آلہ کاروں نے مار دیا، جس پر اس کی ماں نے عبدالقادر کو قسم دی کہ اگر اس نے اپنے سکھ دوست کے قتل کا بدلہ نہیں لیا تو ماں اس کا دودھ نہیں بخشے گی۔ بعد میں عبدالقادر نے اپنے سکھ دوست کے قاتل کو مار کر بدلہ لے لیا۔ پھر احمد شاہ کے کارندے عبدالقادر کا پیچھا کرتے رہے۔ بعدازاں ایک جھڑپ میں عبدالقادر ڈاکو مارا گیا۔

ضلع قصور کے عوام نے اس وقت کے رائج السکہ ایک کروڑ احمد شاہ ابدالی کی حکومت کو دے کر عبدالقادر کی میت وصول کی۔ اس کی نماز جنازہ کی امامت عظیم انقلابی صوفی شاعر بلھے شاہ نے ادا کی۔ تقریباً اسی قسم کا واقعہ ٹھٹھہ، جھوک شریف میں رونما ہوا۔ عظیم انقلابی شاہ عنایت اللہ نے ٹھٹھہ میں زمین کی مشترکہ ملکیت یعنی کسانوں کی کمیون قائم کیا تھا۔ سب مل کر پیداوار کرتے تھے، فصل تیار ہونے پر ضرورت کے لحاظ سے بانٹ دیا جاتا تھا۔ مغل گورنر اعظم خان کی سرپرستی میں سترہ سو اٹھارہ میں عظیم کسان رہنما صوفی شاہ عنایت کو دھوکہ دے کر گرفتار کیا گیا اور سر قلم کر دیا گیا۔ انھوں نے آخری وقت تک معافی نہیں مانگی۔ دور جدید میں بھی ایسے متعدد واقعات ہوتے آ رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔

اٹھارہ سو پینتیس میں کشمیر کے کسانوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو ٹیکس نہ دینے کے خلاف ہڑتال کی۔ گلاب سنگھ نے سات کسان رہنماؤں سبر علی خان، قلی خان، مسافر خان وغیرہ کو ’’منگ‘‘ نامی جگہ پہ زیتون کے درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کر ان کے کھال کھنچوائے لیکن ہزار سلام ہے ان کی جرأت پہ کہ انھوں نے کھال کھنچوالی لیکن معافی نہیں مانگی۔ یہی صورتحال اٹھارہ سو اکہتر میں پیرس کمیون میں وقوع پذیر ہوئی۔ دنیا میں مزدوروں کا یہ پہلا انقلاب تھا۔ اس انقلاب نے دو سو افراد کی اسمبلی تشکیل دی تھی جس میں ایک سو چورانوے انارکسٹ اور چھ مارکسسٹ شامل تھے۔

یہ حکومت ستر دن قائم رہی، بعدازاں سرمایہ داروں نے شب خون مار کر شہر کو خون سے نہلا دیا۔ لیکن اس ستر دن میں مزدور طبقے نے یہ کر دکھایا کہ ان دنوں کوئی ڈاکے پڑے، کوئی قتل ہوا، کوئی بھوکا مرا، کوئی عصمت فروشی ہوئی اور نہ کوئی بے روزگار رہا۔ پھر اٹھارہ سو چھیاسی میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں مزدوروں نے عظیم الشان ہڑتال کر کے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کروا لی۔ اس سے قبل مزدوروں کی ڈیوٹی بارہ چودہ گھنٹے ہوا کرتی تھی۔ جن چار انارکسٹ مزدور رہنماؤں کو پھانسی دی گئی تھی وہ تختہ دار پر پہنچنے تک مزدوروں کا انٹرنیشنل ترانہ گاتے رہے اور جب تختہ دار پر کھڑا کیا تو ایک عظیم انارکسٹ رہنما اوگاسٹس نے ’’ہرے انارکزم‘‘ انارکزم پایندہ باد کا نعرہ لگایا اور پھانسی پر لٹک گئے۔

اب ان عظیم قربانیوں کی بدولت دنیا بھر کے اربوں لوگ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ چند برس پہلے امریکی اسٹاک ایکسچینج کے سامنے ’’وال اسٹریٹ قبضہ تحریک‘‘ دنیا کے اٹھاسی ملکوں کے نو سو شہروں میں انارکسٹوں کی پیش قدمی میں مظاہرے ہوئے۔ ابھی حال ہی میں انیس سو اٹھارہ کے نومبر سے فرانس میں ’’پہلی جیکٹ تحریک‘‘ تاحال جاری ہے۔ مظاہرین نے اپنے دائرے میں تمام بائیں بازو کے کارکنوں، محنت کشوں، پیداواری قوتوں اور شہریوں کو لپیٹ میں لے لیا۔

پنشن، تنخواہ، مہنگائی، بیروزگاری، بونس وغیرہ سمیت بارہ مطالبات بھی منوا لیے۔ اب وہ فرانسیسی صدر کے استعفے، نیٹو سے فرانس کی علیحدگی، غیر ملکوں سے فرانسیسی افواج کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سعودی پانی کا جہاز جو فرانس سے اسلحہ لینے آیا تھا، پیلی جیکٹ تحریک نے پتھراؤ کر کے خالی جہاز کو واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اسلحوں سے وہ یمنیوں کو ماریں گے۔

چند روز قبل بلوچستان میں زبردست برف باری ہوئی۔ ایک شخص سلیمان خان نے بلا حکومتی مدد، بلامشینری کے برف میں پھنسے ہوئے سو افراد کی جان بچائی۔ سلیمان خان کا یہ عمل ایک جرأت مند انارکسٹ عمل ہے۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ بلوچستان اسے انعام دینے پہنچ گئے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاست عوام کے کسی بھی کام نہیں آ سکتی ہے۔ صرف تصویر کھنچوانے کے لیے انعام دینے آ سکتی ہے۔ حبیب جالبؔ نے کہا تھا کہ ’’آٹا مہنگا بکے ،کیے جاؤ تقریر، خون بہتا رہے کیے جاؤ تقریر ، کوئی سنے یا نہ سنے بس کیے جاؤ تقریر۔

بشکریہ روزنامہ آج