ہرچند کہ عالمی سرمایہ داری مسائل کا حل نہیں۔ اس لیے کہ سرمایہ داری کا مقصد منافع بٹورنا ہے۔ پیداواری قوتوں کو دو ٹکڑے اس لیے دے دیتے ہیں کہ وہ زندہ رہ کر پھر مشین یا زمین پر کام کرنے کے قابل رہیں، اگر بالکل ہی حرکت نہیں کر پائیں گے تو پیداوار کہاں سے دیں گے اور سرمایہ دار کا منافع کہاں سے آئے گا۔ مگر اس نظام میں رہتے ہوئے جو کام کیے جاسکتے ہیں میں ان کا تذکرہ کروں گا۔
جیساکہ ملاوٹ، پاکستان میں جانوروں اور پرندوں کی روزانہ لاکھوں ٹن کی چربیاں صابن بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں کچھ تو واقعی صابن بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں مگر بیشتر چربیاں تیل بنانے کے کام میں آتی ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں ایسی فیکٹریاں ہیں جو جانوروں کی ہڈیوں اور اوجھڑیوں کی چربیوں سمیت دیگر چربیاں فیکٹریوں میں تیل میں تبدیل کرکے جعلی کمپنیوں کا پوسٹر کنستر پر چسپاں کرکے ناجائز طور پر فٹ پاتھوں پر ٹھیلے والوں سے لے کر فائیو اسٹار ہوٹلوں تک سپلائی کیے جاتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے انھیں بارہا ثبوت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا ہے لیکن یہ کاروبار جاری ہے۔
پاکستان کے پاس اتنی زمین ہے کہ وہ باآسانی ادرک، لہسن، پیاز اور آلو بڑے پیمانے پر پیدا کرسکتا ہے بلکہ برآمد بھی کرسکتا ہے۔ چونکہ ان میں سرمایہ داروں کو زیادہ منافع نہیں ملتا اس لیے پیداوار جان بوجھ کر کم کی جاتی ہے۔ پھر یہ چیزیں آج کل چین اور ہندوستان سے درآمد کی جاتی ہیں آج کل ہندوستان سے تعلقات بہتر نہیں پھر بھی دوا سمیت بہت سی اشیا آ رہی ہیں مگر ادرک اور لہسن چین سے درآمد کیا جا رہا ہے۔
اسی لیے 160 روپے کلو ادرک اور لہسن بازار میں فروخت ہو رہا ہے۔ سرخ مرچ بھی درآمد کی جا رہی ہے۔ کٹی ہوئی سرخ مرچ 180 روپے پاؤ بیچی جا رہی ہے۔ مونگ کی دال65 روپے پاؤ بک رہی ہے۔ ہم چینی کی ملوں، تیل کی کمپنیوں، کے الیکٹرک، گندم کی تجارت اور سیمنٹ فیکٹریوں کو قومی ملکیت میں لے کر سستی قیمتوں میں چیزیں عوام کو فراہم کرسکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں چند جاگیرداروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمینیں ہیں جب کہ دوسری جانب کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔ اگر 100 ایکڑ زمینوں کو چھوڑ کر باقی زمینیں بے زمین اور کم زمین رکھنے والے کسانوں میں بانٹ دی جائے تو پیداوار میں اضافہ ہوگا اور کسانوں کی غربت بھی ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح سے جو چیزیں زرعی ہوں یا صنعتی ہوں جسے ہم خود پیداوار کرتے ہیں انھیں درآمد نہ کیا جائے یا ان کی درآمدات پر پانچ سو سے ایک ہزار فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے۔ پانچویں جماعت تک جبری تعلیم اور اعلیٰ تعلیم تک مفت تعلیم فراہم کی جائے۔
سب سے زیادہ صحت اور تعلیم کا بجٹ مختص کیا جائے۔ کسانوں اور مزدوروںمیںسے رضاکارانہ فوج تشکیل دی جائے۔ صوبوں کا نام علاقائی خودمختار خطے قرار دے کر قومی اسمبلی کو فیڈرل رابطہ کمیٹی کے طور پر چلایا جائے۔ عوام کے دیرینہ مسائل پر پاکستان کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں بھی صرف ٹی وی ٹاک شوز، پریس کانفرنس اور اسمبلی میں تقاریر کرنے کی حد تک محدود ہیں۔ ہاں مگر پاکستان میں ایسی مزدور تنظیمیں، پیداواری قوتیں، شہری، طلبا اور کسان تنظیمیں ہیں جو عوام کے ہر مسئلے پر ردعمل کا اظہار کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، ہوم بیس ورکرز فیڈریشن، ایگری کلچر یونین، عوامی ایکشن کمیٹی، لیاری عوامی محاذ، طلبا ایکشن کمیٹی ردعمل کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
حال ہی میں جارج فلوئیڈ کے قتل پر اور بلوچستان میں بچوں پر تشدد طلبا کی گرفتاری، کورونا کے مسئلے پر ورلڈ ہیلتھ کی سرگرمی سے تعاون، محنت کش عوام میں راشن کی تقسیم، مہنگائی، بے روزگاری، مزدوروں کی برطرفی، غریب بستیوں کی بے دخلی پر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ناصر منصور کی کمانڈ میں ہر موقع پر ردعمل نظر آتا ہے۔کہیں رفیق بلوچ، کہیں زہرہ خان، کہیں گل رحمن وغیرہ پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہ لوگ آگے چل کر محنت کشوں اور کسانوں کا خودمختار خطہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ جہاں سے پیداواری قوتوں کے مفادات کا تحفظ موثر طور پر کیا جاسکتا ہے۔
امراض قلب کراچی کے اسپتال میں ادویات مریضوں کو مفت فراہم کرنے پر راقم نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے ایک مضمون لکھا اور NICVD کے ڈائریکٹر ندیم قمر سے ملاقات بھی کی تھی مگر اب کورونا کے مدنظر اسپتال انتظامیہ نے جو طریقہ کار استعمال کیا ہے وہ دل کے مریضوں کے لیے نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ اذیت ناک ہے۔ شرط یہ رکھی گئی ہے کہ مریض چل پائے یا نہیں اسے دوا لینے کے لیے ضرور آنا ہے۔ اگر وہ بلدیہ ٹاؤن یا ملیر میں رہتا ہے تو 4 بجے صبح گھر سے نکلے اور پانچ بجے اسپتال پہنچے پھر 7 بجے تک لائن میں کھڑا رہے۔ 7 بجے ایک شخص 150 مریضوں کو ٹوکن دے گا اور پھر مریض ایک دو گھنٹے دوا لینے میں گزار کر ایک گھنٹے کا سفر طے کرکے گھر پہنچے گا۔
یعنی صبح 4 سے 10 تک۔ اس میں مریضوں کی سہولت کے لیے یہ شرط ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ مریض دو گھنٹے کھڑا رہے۔ دوسری شرط صبح 5 سے 7 تک ٹوکن کے لیے منتظر رہے، اسے بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اسے کئی کاؤنٹروں کا چکر لگانے کے بجائے ایک ہی جگہ سے ساری کاغذی کارروائی انجام دی جائے۔ جب ڈاکٹروں کو دکھا کر ہی پرچی بنتی ہے تو پھر دوا لینے کے لیے مریضوں کی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں، اس عمل سے مریض کھڑے کھڑے زندگی کی بازی ہار بھی سکتا ہے۔ اس لیے امراض قلب کے اسپتال کی انتظامیہ فوری طور پر مریضوں پر عائد شرائط اور تکالیف کو دور کرنے کے لیے قدم اٹھائے۔